سیاست کی بے رحمی کے بارے میں سنا اور پڑھا تو بہت کچھ تھا لیکن وہ اب دیکھنے کو بھی مل رہی ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ انتخابی ماحول میں ووٹروں کو گھیرنے کے لئے ہر طرح کے انتخابی نعرے کو فروخت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ جوڑ توڑ سیاست میں اور خاص طور پر حکومت سازی میں اکسیر کا کردار ادا کرتا ہے اسی طرح سے سیاست میں اخلاقی حیثیت سے بھی سب واقف ہیں کہ اس میں نہ تو عہد و پیمان کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی سچائی کی۔ یہاں دوستی اور دشمنی جیسے غیر معمولی کیفیتیں بھی بے معنی ہو جاتی ہیں لیکن سیاست اور انتخابی ماحول میں جنگ جیسی ہولناکی کو انتخابی انسٹرومنٹ کے طور پر کسی کو استعمال کرتے ہوئے جمہوری تاریخ میں پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھا ہوگا جو اب بھارتی سیاست اور انتخابی ماحول میں ہونے جارہا ہے۔ جس نے جنوبی ایشیا کے امن کو خاص طور سے اور باقی ماندہ دنیا کے امن کو عمومی طور پر خطرے میں ڈال دیا ہے۔ جی ہاں میں پاک بھارت جنگ کے اصل پس منظر پر روسنی ڈالنے کی کوشش کررہا ہوں کہ کس طرح سے مودی نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام سے بھارتی ہندوﺅں میں شہرت حاصل کی تھی اور اسی نفرت کے بل بوتے پر وہ پچھلے الیکشن میں کامیاب ہو کر وزیر اعظم بن گئے تھے اور اب وہ اسی حربے کو پاکستان پر حملہ کرنے کی صورت میں استعمال کرکے ایک بار پھر انتخابات میں ہندو ووٹرز کو بے وقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان پر اب دوبارہ حملہ کرنا مودی کو خود کو سیاست میں زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہوگیا ہے وہ اگر پاکستان پر حملہ نہیں کرتے اور یونہی اپنے ایک پائلٹ کی گرفتاری اور دو طیاروں کے گرائے جانے پر پسپائی اختیار کرتے ہیں تو وہ جذباتی اور جنونی ہندوﺅں کے ووٹوں سے محروم ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کا دوبارہ سے وزیر اعظم بننا تو کجا وہ سرے سے سیاست سے ہی آﺅٹ ہو جائیں گے اس کا ادراک بھارت کی اپوزیشن سے زیادہ خود بھارتی فوج کو ہے کہ کس طرح سے ایک ذہنی مریض وزیر اعظم محض اپنے الیکشن کمپیئن کے لئے پورے فوج کو استعمال کرکے موت کے منہ میں دھکیلنے کی کوشش کررہا ہے۔
شاید اسی وجہ سے ایئرفورس کے سربراہ کو کسی بہانے سے تبدیل کردیا گیا ویسے اب تو بھارت کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے عالمی مبصرین کو بھی مودی کی چالبازیوں کا علم ہو گیا ہے کہ وہ نوٹکی کرتے ہوئے دنیا کے امن کو داﺅ پر لگانے کی غلطی کررہا ہے شاید اسی لئے امریکہ، چین، فرانس اور برطانیہ سمیت اسلامی ملکوںکی تنظیم او آئی سی کو بھی بھارتی جارحیت کی مذمت کرنا پڑی لیکن اس پر وہ بھارتی وزیراعظم مودی نے اپنی مجبوری بھی بعض عالمی طاقتوں پر واضح کردی ہے کہ وہ جنگ نہیں کرنا چاہئے لیکن باﺅنڈری لائن پر چھیڑ خانی کرکے اپنے ووٹروں کو خود سے جوڑے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ انتخابی دنگل سے باہر نہ ہو جائیں جب کہ اس کے برعکس پاکستان نے اس ساری صورتحال میں ایک ذمہ دار ملک ہونے کا عملی مظاہرہ کیا اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے جوابی حق ہونے کے باوجود بھارت کو امن کا پیغام دیتے ہوئے اس کے پکڑے جانے والے پائلٹ کو چند گھنٹوں بعد ہی ان کے حوالے کردیا اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان نے بردباری کا مظاہرہ کیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ پاکستان اس وقت سفارتی اور جنگی دونوں محاذوں پر اپنے حریف سے بہت آگے ہے اور اب عالمی دنیا پاکستان کی باتوں پر نہ صرف توجہ دے رہی ہے بلکہ اس پر یقین بھی کررہی ہے اور ایسے لگ رہا ہے کہ بھارت اپنی دہشت گردی اور جارحیت کی وجہ سے عالمی تنہائی کا شکار ہو گیا ہے، کوئی بھی ان کی کسی بات کو سننے کو تیار ہی نہیں جس کا ثبوت بھارتی وزیر خارجہ کا او آئی سی کے اجلاس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہونا اور اس کے بعد اسی اجلاس کی قرارداد میں بھارتی اقدام کی مذمت کرنا ہے حالانکہ پاکستان نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عالمی دنیا کا بھارت کو دیکھنے کا انداز یا پھر زاویہ بدل گیا ہے۔ اب عالمی دنیا بھارت کو ایک سکولر ملک کے بجائے انتہا پسند ہندو دیش کے طور پر دیکھ رہی ہے جب کہ بھارت میں موجود مغربی سفارتکار اپنے ملکوں کو پہلے ہی رپورٹ کر چکے ہیں کہ اگر مودی دوبارہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گیا تو وہ بھارتی آئین میں بنیادی تبدیلی کرکے اسے سیکولر کے بجائے ہندو دیش بنا دے گا۔ جہاں اقلیت کے حقوق ہندوﺅں کے مقابلے میں کمتر کر دیئے جائیں گے اسی مقصد کے لئے مودی جنگ کا سہارہ لے کر اپنے زرخرید میڈیا کے ذریعے جنگی ماحول پیدا کرکے اس میں الیکشن کروانا چاہتا ہے تاکہ مذہب اور پاکستان دشمنی میں ہندو ووٹ اسے مل جائے۔ مودی کے اس ساری چالبازیوں اور مکاری کو پاکستان نے ایک ہی لوہار کے وار سے سبوتاژ کردیا اور اب دنیا مودی اور اس کی حکومت کی اصلیت جان گئی اسی وجہ سے امریکہ نے بھارت کو دی جانے والی تجارتی سہولت واپس لے لی ہے۔ پاکستانی فوج اور حکومت کو چاہئے کہ وہ الرٹ رہے اس لئے کہ اس کا مقابلہ کسی دلیر ملک سے نہیں بلکہ چالاک اور عیار ملک سے ہے جن کا نعرہ ہے ”بغل میں چھری منہ میں رام رام ہے“ اس لئے ان سے کسی بھی طرح کی حرکت کی امید رکھی جا سکتی ہے۔
614