عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 519

میرا گمان ہے یہ۔۔۔

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار عمران خان کے لئے کوئی نیک یا اچھا شگون ثابت نہیں ہو رہے ہیں۔ محض ان کی وجہ سے سائیکل کے دو پہیوں میں بگاڑ کی سی صورت حال کے پیدا ہونے کا امکان بڑھتا جارہا ہے۔ ابھی فی الحال گیند خود عمران خان کی جیب میں ہے، وہ اس تناﺅ کو ختم بھی کرسکتے ہیں اور بڑھا بھی سکتے ہیں۔ ابھی پنجاب پولیس وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی وجہ سے ریڈار پر آچکی ہے ان کی معمول کی غلطیاں اور لاپرواہیاں فوکس ہو رہی ہیں اور اخبارات و سوشل میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔ کشمیر ایشو پس پشت جا رہا ہے اور پنجاب پولیس کو ان کی بربریت اور وحشت پر جموں و کشمیر میں مظالم ڈھانے والے بھارتی فوجیوں پر فوقیت دی جارہی ہے۔ پولیس کے مظالم کو بھارتی فوجیوں کے مظالم سے بڑھا کر پیش کیا جارہا ہے ان سب کا ذمہ دار نہ تو مودی سرکار ہیں اور نہ ہی پاکستانی زرخرید میڈیا بلکہ اس کا ذمہ دار وہ جھوٹی انا ہے جو عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے پر بضد ہے۔ ضد کرنے والے کو اس بات کا ذرا بھی فہم و ادراک نہیں کہ ان کے اس ضد کی وجہ سے پاکستان کتنی بڑی قیمت ادا کررہا ہے اور کشمیر کاز کو کتنا بڑا نقصان پہنچ رہا ہے۔ کشمیریوں سے یکجہتی کے لئے 71 برسوں کے بعد پہلی بار جوش و جذبے سے بیدار کی جانے والی قوم کو کتنا بڑا دھچکا لگ رہا ہے؟ کاش کے وہ تصویر کے اس دوسرے رُخ کو بھی دیکھنے کی صلاحیت رکھتے، سیاست اور راج نیتی کے لئے ضد اور انا کسی بھی طرح سے زہر قاتل سے کم نہیں، یہ انہیں کون سمجھائے۔
نعیم الحق جو ان کے مشیر خاص ہیں خود ان کی سمجھ میں میری یہ بات آئے گی تو تب ہی وہ خود اپنے باس کو سمجھانے کی پوزیشن میں ہوں گے لیکن میں یہ نہیں سمجھتا کہ عثمان بزدار کا مسئلہ اور زیادہ وقت لے گا۔ یہ دوچار دنوں یا پھر دو چار ہفتوں میں کسی کروٹ بیٹھ ہی جائے گا اس لئے کہ عثمان بزدار کی نا اہلی کا پنجاب جیسا ملک کا سب سے بڑا صوبہ مزید متحمل نہیں ہو سکتا اس کی تبدیلی نہ چاہتے ہوئے بھی ان لوگوں کو کرنا ہی پڑے گی۔ جو انہیں اپنے ماتھے کا سندور بنا چکے ہیں ملک پر آئے اس طرح کے ہنگامی صورتحال میں اس طرح کی برائیاں کسی بھی طرح سے نیک شگون ثابت نہیں ہوتی۔ دوسرا سب سے بڑا چیلنج جیلوں میں موجود سیاستدانوں کے پلی بار گینگ پر رہائی کا بنا ہوا ہے اس پر بھی دونوں جانبوں سے عدم اتفاق کی نوید آرہی ہے۔ ایک فریق رہائی پر بضد ہے جب کہ دوسرا فریق اس ہنگامی صورتحال میں انہیں رہا کرنے کو بہت بڑا سیکیورٹی رسک قرار دے رہا ہے کہ رہا ہونے والے افراد اگر لندن چلے گئے تو ان کے منہ کو تالا کون لگائے گا؟ جس کی وجہ سے ریاست پاکستان کو بالعموم اور کشمیر کاز کو بالخصوص بہت بڑے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوگا اس بدلتی ہوئی صورتحال پر بھی دونوں فریقین میں اتحاد کا فقدان ہے۔ میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ یہ میرا گمان ہے۔ کوئی پتھر کی لکیر نہیں جو سو فیصد دُرست ہو جس طرح کی اطلاعات و صورتحال سے واقف کار لوگوں سے مجھے مل رہی ہیں اس پر میرا یہ گمان بن گیا ہے کہ حالات اس طرف جارہے ہیں لیکن پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ گیند عمران خان کے خود اپنی جیب میں ہے کہ وہ ان مسائل سے خود کو اور اپنی حکومت کو کس طرح سے نکالتے ہیں؟ بیرونی محاذ پر کھیلنے سے روکنے کے لئے اندرون محاذ پر پچ خود ان کی ضد اور انا نے تیار کرلی ہے اور اندر سے مضبوط ہوئے بغیر باہر کے دُشمنوں سے لڑنا نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن ہو جائے گا۔ میں اس طرح سے لکھ کر خدانخواسطہ کسی کے حوصلے پست اور کسی کے بلند کرنے کا جرم یا گناہ نہیں کررہا بلکہ میں تو انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش کررہا ہوں تاکہ وہ اپنی بگڑی اور گندی صورت دیکھ کر اسے صاف کرنے کی کوشش کرے۔ میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں اس کالم کے ذریعے پنجاب پولیس کو بے گناہ یا فرشتہ ثابت کرنے کی بھی کوشش نہیں کررہا۔ پنجاب پولیس نے یقیناً غلط کام کئے ہیں، عوام پر تشدد کرنا یہاں تک کہ مجرموں کو پکڑ کر ان پر بھی تشدد کرکے انہیں ہلاک کرنا ایک ناقابل معافی جرم ہے اور اس کے ذمہ دار پولیس والوں کو سخت سے سخت سزا دینی چاہئے لیکن یہ سب کچھ ابھی اچانک راتوں رات تو نہیں ہوا، یہ تو پولیس کا کلچر ہے اور ہمیشہ سے پورے ملک کی پولیس اسی طرح سے کرتی رہتی ہے، کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ پنجاب پولیس ان دنوں اس لئے زد میں آرہی ہے کہ اصل نشانہ تو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ہیں، پولیس تو ایک بہانہ ہے، میرا استدلال اب بھی وہی ہے کہ پنجاب پولیس کی دہشت اور بربریت کو فوکس کرکے دراصل کشمیر کاز کو نقصان پہنچ رہا ہے اس سارے معاملے میں پاکستانی میڈیا کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے، صرف اپنی ریٹنگ یا اپنے ایجنڈا صحافت سے ہٹ کر ملکی پالیسی کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ان کی صحافت سے ملک کو فائدہ پہنچ رہا ہے؟ یا نقصان؟ اس لئے کہ یہ ملک نہ تو عثمان بزدار کا ہے، نہ ہی عمران خان کا اور نہ ہی کسی اور کا؟ یہ ملک خود صحافیوں کا اور اس میں رہنے والے 25 کروڑ دوسرے پاکستانیوں کا ہے، چند لوگوں کی سزا پورے ملک کو دینا کہاں کا انصا ف ہے؟ آخر میں عمران خان سے اتنی سی گزارش ہے کہ وہ ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں کہ وہ کیا کررہے ہیں، اپنے بائیس سالہ سیاسی جہد کا جنازہ کہیں اپنے انا اور ضد میں 22 ماہ کے اندر ہی تو نکالنے کی غلطی نہیں کررہے؟ صوبے ادارے یا نظام شخصیتوں کے محتاج نہیں ہوتے اور نہ ہی ملک سے ایمانداروں اور دیانتداروں کا کوئی خاتمہ ہو گیا، آپ تلاش تو کریں، ممکن ہے آپ کو عثمان بزدار سے بھی کوئی زیادہ اچھا ایماندار اور با صلاحیت سیاستدان پنجاب کے وزارت اعلیٰ کے لئے مل جائے، عمران خان بدلتا ہوا پاکستان آپ کے فیصلے کا منتظر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں