عمران خان کے دور حکومت میں کرپٹ سیاستدانوں اور میڈیا کی چیخیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہی ہیں۔ سیاستدانوں کے خلاف کارروائی اور ان کی نکلنے والی چیخیں تو سمجھ میں آرہی ہیں لیکن میڈیا کی چیخیں کس خوشی میں نکل رہی ہیں؟ یہ سمجھ سے باہر ہے؟ لیکن میری اپنی معلومات کے مطابق پاکستانی میڈیا ان دنوں سیاستدانوں کے مقابلے میں زیادہ سخت ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات اور اس میں کام کرنے والے صحافیوں اور دوسرے ملازمین پر ملازمتوں کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال طاری ہے۔ کوئی بھی اپنے موجودہ پوزیشن پر مطمئن نہیں، ہر کسی کو دھڑکا لگا ہوا ہے کہ ملنے والی یہ تنخواہ اس کی آخری تنخواہ نہ ہو۔ اس طرح کی صورتحال میں اچھے سے اچھے با صلاحیت شخص کی کارکردگی بھی صفر ہو کر رہ جاتی ہے۔ میڈیا میں اس صورتحال سے وہ ورکنگ جرنلسٹ سب سے زیادہ متاثر ہیں جو کسی بھی ادارے میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں پاکستانی میڈیا اتنا پریشان اور دکھی تو کبھی دور آمریت میں بھی نہیں ہوا جتنا عمران خان کے اس عوامی اور بدلے ہوئے پاکستان کے دور میں ہو رہا ہے۔
کیا یہ بات یہ الزام اور شکایت درست ہے؟ اس الزام یا اس شکایت میں اتنا سچ تو ہے کہ موجودہ حکومت نے میدیا سے بے رُخی اختیار کر رکھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں حکومت کو میڈیا کی ضرورت نہیں اس لئے وہ میڈیا کو گھاس نہیں ڈال رہی، اسی لئے حکومت نے میڈیا کے غیر ضروری اشتہارات بھی بند کر دیئے ہیں۔ جس کی وجہ سے میڈیا پر ایک بحران آگیا ہے اور اس کا خمیازہ ورکنگ جرنلسٹ کو برطرفی کی شکل میں ادا کررہے ہیں اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے میڈیا کے اشتہارات قانون کے مطابق بند کئے ہیں یا یہ ان کا غیر قانونی حکم ہے اور میڈیا پر اپنا تسلط جمانے کے لئے اسے بطور حربہ اختیار کیا گیا ہے؟ میری محدود معلومات کے مطابق اخبارات اور ٹی وی چینلز کو اشتہارات دینا کسی بھی حکومت کا صوابدیدی اختیار ہوتا ہے یہ کسی بھی ادارے کا استحقاق نہیں ہوتا کہ وہ حکومت سے ہر حال میں اشتہار لے، رہا اخبارات اور چینلز سے ورکنگ جرنلسٹ اور دوسرے ملازمین کی چھانٹی یہ ان اداروں کے ذاتی فیصلے ہیں اس کا حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں اور نہ ہی اس کا ذمہ دار عمران خان اور ان کی حکومت کو ٹھہرانا چاہئے اور نہ ہی ان پر یہ تھوپنا جائز ہے، اس کے لئے متاثرہ ملازمین کا سب سے موثر اور بہترین فورم ان کی اپنی تنظیمیں پریس کلب فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور اے پی این ایس اور سی پی این ای وغیرہ ہیں۔ انہیں وہاں نہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہئے بلکہ انہیں مجبور کرنا چاہئے کہ وہ انہیں ملازمتوں سے برخاست کرنے والوں سے باز پرس کریں اس لئے کہ انہیں ملازمتوں سے بے دخل حکومت نے نہیں بلکہ ان اخبارات اور ٹی وی چینلز کے مالکان نے کیا ہے جو اپنے منافع میں ہونے والے نقصان کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بنائی جانے والی یہ تنظیمیں کس طرح سے ملازمین کے تحفظ کے لئے اداروں کے مالکان پر دباﺅ ڈالتی ہیں؟ بظاہر تو ایسا کرنا مشکل نظر آرہا ہے مگر ناممکن نہیں، اس سلسلے میں عمران خان کی حکومت پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بڑی تعداد میں ورکنگ جرنلسٹ کی ملازمتوں سے برطرفی کا نوٹس لیتے ہوئے اس کے ذمہ دار عناصر سے گفت و شنید کرے اس لئے کہ اس سارے معاملے کا ملبہ کسی نہ کسی طرح سے حکومت پر ہی گرایا جارہا ہے اور حکومت کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے حالانکہ حکومت اس کی ذمہ دار نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وزارت اطلاعات میں وہ اس سلسلے میں کمیٹی بنائے جس میں حکومتی اراکین اور جرنلسٹس تنظیموں کے ممبران کو شامل کرکے اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کرے اور لوگوں کو بے روزگار ہونے سے بچائے اور اخبارات اور چینلز کے اشتہارات سے متعلق جو جائز شکایات ہیں اس کا فوری طور پر ازالہ کرے جن اشتہارات پر قانون کے مطابق ان اداروں کا حق ہے وہ انہیں جاری کرے اور اشتہارات کی مد میں ان کے سابقہ بقایہ جات بھی فوری طور پر ادا کئے جائیں۔ تاکہ جو بحران اخباری صنعت میں اس وقت طاری ہوا ہے اس کا خاتمہ ہو سکے اس کے ساتھ ساتھ میڈیا ہاﺅسز کی جانب سے جو شکایات انہیں خبروں کے معاملے میں کنٹرول کرنے کی مل رہی ہیں اس کا بھی ازالہ کیا جائے۔
میڈیا کے لئے پیمرا کے ذریعے ایک ضابطہ اخلاق بنایا جائے جو کوئی بھی اس ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتا ہوا پایا جائے اس کے خلاف ملک کے مروجہ قانون کے تحت کارروائی کی جائے اس لئے کہ ریاست ہر ادارے جمہوریت اور آزادی اظہار رائے پر مقدم ہے۔ ریاست کی توہین اور اس کے تحفظ کو ہر معاملے پر فوقیت دی جائے جو کوئی اپنی حدود کو کسی بھی وجہ سے کراس کرتا ہے اس کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے، بالکل اسی طرح سے جس طرح طیب اردگان نے ترکی میں صحافیوں کے ساتھ کیا ہے۔ جہاں کسی کو بھی آزادی اظہار رائے کے نام پر ریاست کے خلاف مہم چلانے اور ملکی عوام میں بے چینی اور مایوسی پھیلانے کی نہ صرف اجازت نہیں ہے بلکہ اس طرح کا عمل ہی جرم اور قابل سزا تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کے قوانین دوسرے مہذب اور جمہوری معاشروں میں بھی قابل عمل ہیں۔ پاکستان کو بھی اس کی تقلید کرتے ہوئے ملک کو اس وبا اور بیماری سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاک کردینا چاہئے۔ اس لئے کہ پاکستان کا ایک مخصوص میڈیا ہمیشہ ہی ملک دشمنوں اور کرپٹ سیاستدانوں کے سہولت کار کا کردار ادا کرتا آرہا ہے۔ جس سے نجات اب ضروری ہو گیا ہے۔ اس لئے وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ ورکنگ جرنلسٹوں کے برطرفی کے مسئلے کو فوری طور پر حل کرتے ہوئے میڈیا کے بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالیں جو ان ورکنگ جرنلسٹوں کے سڑک پر لانے اور اس کا الزام حکومت پر لگانے کے ذمہ دار ہیں، ان پر ہاتھ ڈالے بغیر میڈیا میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ نہیں ہو سکے گا۔ اور نہ ہی ملک میں دیرپا امن قائم ہو سکے گا۔ جس کا فائدہ ملکی اپوزیشن اور ملک دشمن قوتیں اٹھاتی رہیں گی۔
426