پاکستان میں جس روز سے ٹی وی چینلز کی بہتات ہوئی ہے ہر خبر، ہر پروگرام اور تمام نئے بننے والے ڈراموں کا معیار بڑھنے کے بجائے روز بروز پستی کی جانب جارہا ہے۔ ہمیں یاد ہے پاکستان میں بلیک لینڈ وائٹ ٹی وی شروع ہوئے اور پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کا آغاز کیا تو خبر ناموں سے لے کر مزاحیہ پروگراموں اور ڈرامہ سیریلز میں ایک معیار ہوتا تھا۔ خدا کی بستی، ان کہی، فٹی فٹی، اسٹوڈیو ڈھائی اور الف نون جیسے شاندار پروگرام دکھائے جاتے تھے جن میں ایک پیغام ہوتا تھا۔ ٹی وی سیریل میں بھی سنجیدگی اور پاکستانی کلچر کا بھرپور رنگ نظر آتا تھا۔ خبرنامہ پڑھنے والی خواتین سر پہ دوپٹہ لئے، شرافت اور تقدس کی علمبردار دکھائی دیتی تھیں۔ ہر خبر تصدیق شدہ ہوتی تھی جب کہ آج اَن گنت ٹی وی چینلز کے آجانے سے جہاں میڈیا وار کا آغاز ہوا۔ وہیں خبروں میں سبقت لے جانے کے چکر میں غلط رپورٹنگ کا آغاز ہوا۔ مزاحیہ ڈرامے دیکھیں تو جگت بازی تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ جن میں ایسی بازاری زبان اور ایسے بے ہودہ پروگرام دکھائے جارہے ہیں کہ جن کا پاکستانی کلچر سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں۔ کچھ مختلف صورتحال ٹی وی ڈرامہ سیریل کی بھی نہیں۔ جس میں نوجوان نسل کو انتہائی غلط پیغامات دیئے جارہے ہیں یعنی گرل فینڈ اور بوائے فرینڈ کا ہونا یا شادی شدہ خواتین کا شوہر کے ہوتے ہوئے بوائے فرینڈز رکھنا، یا پھر شوہروں کا دوسری عورتوں سے تعلقات کو سیریل کا حصہ بنانا۔ ہماری نئی نسل کو اس جانب راغب کرنے کے مترادف ہے۔ اور صورتحال یہ ہے کہ جس طرح ایک زمانے میں پوری فیملی بیٹھ کر انڈین فلمیں دیکھنے سے قاصر تھیں بالکل اسی طرح آج کل کے پاکستانی ڈرامہ سیریل اس قابل نہیں کہ والدین اور بچے ساتھ مل کر دیکھ سکیں۔
حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والے خلیل الرحمن قمر کے ڈرامہ سیریل ”میرے پاس تم ہو“ کی مثال لے لیں۔ اس ڈرامہ میں عورت کو جس طرح بے وفا اور دو کوڑیوں کا بنا کر پیش کیا گیا ہے اور پھر جس طرح خلیل الرحمن قمر نے اپنے لکھے ڈرامہ کو Defend کیا اور عورتوں کے کردار پر کیچڑ اچھالا وہ قابل مذمت اور قابل افسوس ہے۔ عورت کی پاکیزگی اور عظمت قابل احترام ہے۔ عورت اگر اپنے مرکز سے بھٹکتی ہے تو وہ بھی مرد کی شہ پر اور پھر عورتوں میں بھٹکنے کی صفت مردوں کے مقابلہ میں کم ہوتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو خواتین ایک مرد کے ساتھ زندگی گزارنے میں اپنی عزت تصور کرتی ہیں مگر مردوں کو ایک عورت کے ہونے کے باوجود دوسری عورتوں کو دیکھنے اور فلرٹ کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ اکثر عورتیں ردعمل کے طور پر بھی بھٹک جاتی ہیں۔ وگرنہ عورت صرف محبوبہ یا بیوی نہیں بلکہ ماں، بہن اور بیٹی جیسے مقدس رشتوں کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتی ہے۔ ہمارا ملک پاکستان معیشت اور تعلیم میں تو ترقی نہ کرسکا البتہ اخلاقیات میں روز بروز پستی کی جانب گامزن ہے۔ ہماری نوجوان نسل کنفیوژن کا شکار ہے۔ قوم انگلش میڈیم اسکولز اور اُردو میڈیم اسکولز کے فرق کا شکار ہو چکی ہے۔ انگریزی بولنا اور سمجھنا ہمارے ملک میں ایک Status Symbol ہے۔ ہم بھول چکے ہیں کہ بحیثیت پاکستانی ہمارے معاشرتی ذمہ داری کیا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں کن احکامات پر عمل کرنا چاہئے اور اسلام کی بات کریں تو کس فرقہ کے مولوی کی تقلید کی جائے۔ ہماری نئی نسل پریشان ہے اور رہنمائی کی طلبگار۔
428