ٹورنٹو/شکاگو (محمد ندیم) یہاں پہنچنے والی اطلاعات کے مطابق گزشتہ 72 گھنٹوں میں سیاسی اور معاشی سرگرمیوں نے بہت سے نئے اور اہم سوالات کو جنم دیا ہے۔ اور سیاسی تجزیہ نگار غور و فکر کرنے کے بعد یہ بات بتانے سے قاصر ہیں۔ کہ اب کیا ہوگا؟ سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی ضمانت میں توسیع سے انکار کردیا۔ نیب کی گاڑی آصف زرداری کی قیام گاہ پر پہنچی جہاں آصف زرداری نے خود گرفتاری پیش کی۔ گرفتاری سے قبل چھوٹی بیٹی آصفہ کو گلے لگایا، بیٹے بلاول کا ماتھا چوما اور نیب کے حکام کے ہمراہ سیاہ گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔ ان کی گرفتاری کے اگلے دن نیب نے کورٹ آصف زرداری سے پوچھ گچھ کے لئے گیارہ روز کا ریمانڈ مانگ لیا تاکہ مقدمہ کی تفتیش مکمل کی جاسکے۔ کورٹ نے نیب کی درخواست کو قبول کرلیا، اسی دن یعنی گیارہ جون کو مسلم لیگ نواز کے لیڈر اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے فرزند حمزہ شہباز کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی خبر کہ لندن میں پولیس نے ایم کیو ایم کے قائد کو بھی تحویل میں لے لیا۔ بہت سے اخبارات نے لکھا انہیں گرفتار کیا گیا ہے، اس خبر نے سندھ اور کراچی کے تناظر میں مزید سوالات کھڑے کردیئے۔ الطاف حسین کی گرفتاری میں پاکستان بالخصوص کراچی میں سب کو حیرات زدہ کردیا۔ بعض نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ایم کیو ایم اب مکمل طور پر ختم ہوگئی۔ لیکن کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ آصف زرداری کا پاکستان میں اور الطاف حسین کا لندن میں گرفتار ہونا معنی خیز ہے۔ ان گرفتاریوں سے کس نے کس کو کیا پیغام دیا ہے یہ چند میں واضح ہو جائے گا۔ عین اس وقت جب الطاف حسین کی گرفتاری کی پٹیاں ٹیلی ویژن پر چل رہی تھیں روزنامہ جنگ نے اپنی ویب سائیٹ پر ایک مختصر خبر لگائی، جو کہ دراصل سابق صدر آصف علی زرداری کا بیان تھا کہ ان کی گرفتاری کے پیچھے موجودہ وزیر داخلہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کا ہاتھ ہے، میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ عمران خان ایک کٹھ پتلی وزیراعظم ہیں۔ اور سب کچھ اعجاز شاہ کررہے ہیں۔ زرداری کے اس بیان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ سابق صدر سندھ کارڈ کھیلنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ بے نظیر نے بھی اپنے قتل سے قبل یہ الزام لگایا تھا کہ اعجاز شاہ ان کی جان لینا چاہتے ہیں، سندھ کے لوگ اور جیالے سمجھتے ہیں کہ بے نظیر کے اصل قاتل اعجاز شاہ ہیں۔ زرداری نے اپنے ایک اور بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ بہت جلد عمران کو لندن بھاگتے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے اس بیان نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ روزنامہ جنگ نے کچھ ہی دیر میں اس خبر کو ویب سائیٹ سے اتار دیا۔ مگر اس وقت تک یہ خبر وائرل ہو چکی تھی۔ اسی دوران اسمبلی میں نیا بجٹ پیش کیا گیا۔ جس کے دوران اپوزیشن نے گو عمران گو کا شور مچا دیا۔ تاہم پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اور خسارے کا بجٹ پیش کردیا گیا۔ بجٹ کی منظوری سے قبل اس پر بحث ہو گی پھر اس کی منظوری کے لئے ووٹنگ ہوگی۔ چند سینئر وکلاءکا کہنا ہے کہ اگر بجٹ پاس نہ ہوا تو حکومت کے گرنے کا امکان پیدا ہو جائے گا۔ اسی لئے زرداری کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی ہے۔ تاکہ بجٹ میں کوئی رخنہ نہ ڈال سکے۔ واضح رہے کہ بجٹ پیش کئے جانے کے دوران پی ٹی آئی کی حکومت کے اہم اتحادی اختر مینگل نے اپنی پارٹی کے اہم لیڈران کے ہمراہ غیر متوقع طور پر پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ تجزیہ نگاروں نے اس امکان کو رد نہیں کیا ہے کہ اختر مینگل پی ٹی آئی کی حکومت سے اتحاد جلد ختم کردیں گے اور ممکن ہے وہ بجٹ کی حمایت بھی نہ کریں۔ یہ خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ عمران خان کی بہت سے سنجیدہ کوششوں کے باوجود بھارت سے تعلقات میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ پاکستان کی بھرپور کوشش ہے کہ بھارت سے تناﺅ میں کمی ہو، تاکہ دونوں ممالک سرحدوں سے فوجیں واپس بلا لیں۔ اور حالات معمول پر آجائیں۔ وگرنہ جون جولائی کے مہینے پاکستان کے لئے بھاری ہوں گے۔
586