اسلام آباد: حکومت نے عافیہ صدیقی کو پاکستان واپس لانے کیلئے مختلف آپشنز پر غور شروع کردیا، عافیہ صدیقی کی صحت انسانی و قانونی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے حکومت پاکستان امریکی حکومت سے مسلسل رابطے میں ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے فوزیہ صدیقی سے ملاقات کے دوران ان کو عافیہ کی رہائی کے حوالے پاک امریکہ بات چیت کے حوالے سے آگاہ کیا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ میں قائم پاکستانی قونصل خانہ عافیہ صدیقی کی صحت اور ان کے انسانی و قانونی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے باقاعدگی کے ساتھ ’قونصلر وزٹس‘ کا اہتمام کرے گا۔ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ عافیہ کی پاکستان منتقلی کے حوالے مختلف آپشن پر بات چیت ہوئی ہے تاہم فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
انہوں نے فوزیہ صدیقی کو بتایا کہ امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران عافیہ صدیقی کا معامہ اٹھایا تھا اور عافیہ صدیقی سے متعلق تمام تر بنیادی انسانی حقوق کو مدنظر رکھنے پر اپنا موقف پیش کیا تھا۔
واضع رہے کہ عافیہ صدیقی امریکی شہریت رکھنے والی پاکستانی سائنسدان ہیں جن پر افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں پر حملے کرنے کے الزام سزا سنائی گئی تھی۔ مارچ 2003 میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے اہم کمانڈر اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے لاپتہ ہوگئی تھیں۔
عافیہ صدیقی کی گمشدگی کے معاملے میں نیا موڑ اس وقت آیا، جب امریکا نے 5 سال بعد یعنی 2008ءمیں انہیں افغان صوبے غزنی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔ عدالتی دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عافیہ صدیقی کے پاس سے 2 کلو سوڈیم سائینائیڈ، کیمیائی ہتھیاروں کی دستاویزات اور دیگر چیزیں برآمد ہوئی تھیں، جن سے پتہ چلتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی تھیں۔
عافیہ صدیقی پر مزید یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ امریکی فوجی اور ایف بی آئی افسران نے پوچھ گچھ کی تو انہوں نے مبینہ طور پر ایک رائفل اٹھا کر ان پر فائرنگ کر دی لیکن جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوگئیں۔ امریکی انتطامیہ کا کہنا تھا کہ اس کے بعد عافیہ صدیقی کو امریکا منتقل کر دیا گیااور امریکی عدالت میں ان پر مقدمہ چلا اور 2010ءمیں ان پر اقدام قتل کی فرد جرم عائد کرنے کے بعد 86 برس قید کی سزا سنائی گئی۔
587