امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 394

پاکیءداماں کی حکایت

ہم جیسے امید کے مارے اور مثالی دنیا کے خواب دیکھنے والے ، بڑے شاعروں اور بڑی شاعری میں الجھے رہتے ہیں۔ جب کسی بڑے شاعر کا کوئی بڑا شعر سنتے ہیں تو ہماری خوش خوابی اور بھی گہری ہوجاتی ہے۔ پھر یہ شاعر اپنے شعروں میں ایک دوسرے کو شاید جواب بھی دیتے ہیں۔ چاہے شعر کے درمیاں برسوں کا وقفہ ہی کیوں نہ آیا۔ ہم نے اس تحریر کا عنوان بھی ایک بڑے شعر ہی سے قرض لیا ہے۔ لیکن یہ شعر آتے ہیں اسی شاعر کا ایک اور خوبصورت شعر بھی ہمیں خواب میں دلاسا دیتے ہوئے آن پڑا۔ شعر یوں ہے:اٹھ صبح ہوئی ، مرغِ چمن نغمہ سرا دیکھ۔۔نورِ سحر و حسنِ گ±ل و ل±طفِ ہوا دیکھ۔۔۔۔ یہ شعر شاید نواب شیفتہ نے بہادر شاہ ظفر کی شکست ودر بدری سے پہلا سوچا ہوگا۔ جب شیفتہ پان کی گلوریا ں چکھتے ہوں گی اور ان کی حویلی میں کہیں، خلیل خان فاختہ اڑاتے ہوں گے۔ ان کے بعد کے بڑے شاعر ، ساحر لدھیانوی ، نے صبحِ نو کے انتظار میں اور نواب شیفتہ کے نورِ سحر کے خواب دیکھتے دیکھتے ، کہا کہ :۔ وہ صبح کبھی تو آئے گی۔ ان کالی صدیوں کے سر سے، جب رات کا آنچل ڈھلکے گا۔۔جب دکھ کے بادل پگھلیں گے، جب سکھ کا ساگر چھلکے گا۔۔جب انبر جھوم کے ناچے گا، جب دھرتی نغمے گائے گی۔ وہ صبح کبھی تو آئے گی۔۔۔ جس صبح کی خاطر ج±گ ج±گ سے، ہم سب مر مر کر جیتے ہیں۔۔جس صبح کی امرت کی دھ±ن میں، ہم زہر کے پیالے پیتے ہیں۔
اور پھر ایک صبح آئی اور فیض نے، وہی فیض جنہیں اب صوفی بنایا جارہا ہے، اور ان کی قوالی گائی جارہی ہے، کہا کہ: یہ داغ داغ اجالا ، یہ شب گزیدہ سر۔۔ وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔۔ یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر ، چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں۔۔۔فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل۔۔ کہیں تو ہوگا شبِ س±ست موج کا ساحل۔ ان سب شاعروں کے متوالے ہم جیسے دیوانے دیکھ رہے ہیں کہ، شبِ سس±ت موج اور بھی سیاہ ہوتی جارہی ہے۔ ساحر کے ج±گ ج±گ کے انتظار پر کلج±گ کا زحل ناچ رہا ہے۔ صبح کی امرت کا انتظار کرنے والوں کو زہر کے پیالے پلائے جارہے ہیں۔ دھرتی کے نغمے گانوں والو ں کی زبانیں کھینچی جارہی ہیں۔۔اور امید کا گیت لکھنے والوں کی انگلیاں پتھروں تلے کچلی جاری ہیں۔ اور ستم یہ ہے کہ ، کلج±گ کے برباد عادی پان کی گلوریاں کھار ہے ہیں، اور سب خلیل خان بن کر فاختایئں اڑا رہے ہیں۔ آج یہ سب کچھ یوں یاد آیا کہ گزشتہ دنوں پاکستانیوں کے ساتھ پھر وہی چمتکار ہو گیا ، جو ا±ن کے ساتھ پاکستان بننے کے دن ہی سے کیا جارہا ہے۔ اور اس کی ذمہ داری پاکستان کے بانی سیاست دانوں سے لے کر آج تک کے سیاسی رہنما اور غیر سیاسی کھلاڑی کرتے رہے ہیں۔ ہم سب کو یاد رکھنا چاہیئے کہ پاکستان ، دراصل سیاسی کارکنوں اور ان کی جماعت مسلم لیگ نے ’قائدِ اعظم ‘ محمد علی جناح اوران کے سیاسی ساتھیوں نے بنایا تھا۔ وہی سیاسی ساتھی جن میں سے اکثر کو بعد میں جناح صاحب نے ’کھوٹے سکے ’ قرار دیا تھا۔ وہی کھوٹے سکے جو شروع ہی سے غیر سیاسی کھلاڑیوں کے ساتھ مل اپنے سکے کھرے کرتے رہے ہیں۔ اور بعدمیں غیر سیاسی اداروں نے اپنے لیئے ”اداروں “ کی اصطلاح ایجاد کر لی ہے۔
کیا آج تک کسی کو یہ خیال آیا کہ، ہمارے قائدِ اعظم (جو عظیم قانون دان اور عظیم رہنما تھے) نے۔ کیوں کبھی واضح طور پر نہیں بتا یا کہ پاکستان کا سیاسی نظم کیا ہوگا؟ اس کا آئین کیا ہوگا۔ جب کہ ان کی نظر میں برطانیہ اور امریکہ کے آیئنی نظام تھے۔ کیا انہوں نے رہنمائی کی کہ ’اداروں ‘ کا کردار اور ان کا سیاسی نظام سے کیا تعلق ہوگا۔ لوگ یہ کہتے ہیں کہ قائدِ اعظم اپنی صحت کی وجہہ سے شاید ایسا نہ کر پائے۔ یہ ایک بہانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ کوئی بھی صاحبِ دانش سیاستدان جو کم ازکم دس سال تک پاکستان بنانے کی جدو جہد میں مصروف تھا، اگر خود سے یہ سوال نہیں کر رہا تھاتو ، اس کی جدو جہد نا مکمل تھی۔ یہی وجہہ ہے کہ ہم آئین سازی کو آج تک مکمل نہیں کر پائے۔
قیام پاکستان کے بعد سے ہمارے ادار ے اقتدار میں شرکت کے خواہاں رہے۔ جب پہلا آئین بنا تھا تو اس میں اداروں کا کردار سیاست کے طابع تھا۔ یہ کبھی قبول نہیں کیا گیا۔ ہم یکے بعد دیگر ے حکومتیں گراتے رہے، اداراتی (یہاں فوجی کہنے میں کچھ قباحت نہیں ہے)، انقلاب برپا کرتے رہے، اور پھر ہم نے پاکستان کو ہی ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ باقی ماندہ پاکستان والوں نے سخت جدو جہد کے بعد ایک آئین بنایا۔ اسے دو اور فوجی انقلابوں اور کم از بیس سال کے عسکری اور نیم عسکری نظامِ حکومت میں پھر مسخ کر دیا۔ سیاستدانوں نے پھر ہمت کی اور آئین میں اٹھارویں ترمیم کرکے اداروں کا کردار واضح کر دیا۔ یہ بات اداروں کو کبھی پسند نہیں آئی۔ کیونکہ اس سے ان کی من مانی بھی محدود ہوتی ہے، اور صوبوں اور عوام کو ان کا حق بھی دیا گیا ہے۔ یہ اداروں کو بالکل ہی منظور نہیں ہے۔ وہ آئین کی وفاداری کا حلف تو اٹھاتے ہیں لیکن اس آئین کو جو انہیں حکمرانی میں شامل کرتا ہو۔
ہمارے حکمرانی نظام پر اداروں کی بالا دستی ایک بار پھر پورے زور سے ثابت ہوئی ہے۔ ایک تو یوں کہ سپریم کورٹ کے ایک تکلیف دہ فیصلہ کے تحت یہ حکم دیا گیا کہ فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت کا تعین کیا جائے۔ اور یہ طے کیا جائے کہ انہیں توسیع کیسے دی جاسکتی ہے۔ اس کو حکومت نے جھٹاپٹ حزبِ اختلاف سے مل طے کردیا۔ اب ہر فوجی سربراہ کو تین برس کی اضافی توسیع وزیرِ اعظم کے ذریعہ دی جاسکتی ہے۔ کسی نے سوچا کہ اگر فوج حکومت کا ذیلی ادارہ ہے تو حکومت کے دوسرے ذیلی اداروں کے سربراہوں کو توسیع کیوں نہیں دی جاسکتی۔ اس معاملہ پر عوام کی بالاد ستی کا ہر دعویدار، اداروں کا تابعدار بننے کو تیا ر ہوگی۔
اس سے بھی تکلیف دہ فیصلہ جنرل مشرف کو غدار قرار دینا اور ان کو آئین شکنی کی سزا دینا تھا۔ یہ اداروں کو بالکل منظور نہ تھا۔ سو ان کے کچھ لوگوں نے ہر روایت اور ضابطہ اخلاق کو لپیٹ کر خود عدالتوں میں فی نکال دی۔ اور پھر چشمِ زدن میں یوں ہوا کہ وہ عدالت ہی غیر آئینی قرار دے دی گئی جس نے یہ فیصلہ کیاتھا۔ عمران خان کی حکومت نے ان لوگوں کوحکومت کی نمائیندگی کے لیئے بھیج دیا جو خود جنرل مشرف کے سابق ملازم اور تابعدار تھے۔ اس عدالت کو غیر آئینی قرارد ینے کے فیصلہ پر خود عمران خان بھیگی بلی بنے بیٹھے ہیں۔ وہی عمران خان جو جنرل مشرف کو غدار قرارد یتے نہیں تھکتے تھے۔
اور اب ادارے بھی ، حکومت بھی، اور سیاست دان بھی، پاکیزگی کے دعوے کر رہے ہیں۔ مشاہد حسین سمیت چند ایک، لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، کہ ایک بار پھر چمتکار ہو گیا ہے۔ وہی مشاہد حسین جو اس سے پہلے بھی اس بیباکی کی سزا بھگت چکے ہیں۔ یہ چکی شاید پھر چلے اور اب دیگر گھ±ن بھی پس جائے۔ہمارے خیال میں تو اب سیاستدانوں کو آئین میں ترمیم کر کے ایک بار اداروں کو حکمرانی میں ہمیشہ کے لیے شامل کر لینا چاہیے۔جہاں تک پاک بازو ں کا تعلق ہے ، ہم ان کی خدمت میں نواب شیفتہ کا یہ شعر پیش کرکے رخصت ہوتے ہیں۔
اتنی نہ بڑھا پاکیءداماں کی حکایت۔۔۔ دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں