عمران خان توجہ فرمائیے! 350

چائنا ۔ انڈیا لداخ بارڈر جھگڑا کرونا سے توجہ ہٹانا ہے؟

5 مئی کو چین اور انڈیا کے فوجی دستوں کے درمیان دست بدست لڑائی جو کہ ہمالیہ ریجن میں لداخ کی جھیل ”پنگ گونگ ٹسو“ (Lake Pangong Tso) میں ہوئی۔ یہ جھیل سطح سمندر سے چودہ ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے۔ جہاں انسانی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے یہ علاقہ موسم سرما میں شدید برفبانی سے اسے ناقابل رہائش ہو جاتا ہے۔ محل وقوع کے اعتبار سے یہ جھیل مقبوضہ کشمیر کے سرحدی علاقوں سے ملتی ہے جب کہ دوسری طرف آزاد کشمیر اور (CEPEC) کے زیر انتظام بننے والی ون بیلٹ ون روڈ کے قریب واقع ہے۔ چین کہتا ہے کہ یہ ہمارا علاقہ ہے۔ 1962ءمیں ہونے والی چین ۔ انڈیا محدود پیمانے کی جنگ سے لے کر اب تک کئی سرحدی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔ چین کا واضح موقف ہے کہ انڈیا اس متناعہ علاقہ میں انفراسٹرکچر تعمیر کررہا ہے جو کہ عالمی قوانین کی خلاف ہے۔ حالیہ جھڑپوں کے دوران مختلف ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں طرف کی فوجیں ایک دوسرے کے ساتھ سخت الفاظ کا تبادلہ کررہی ہیں اور بالاخر یہ لڑائی لاتوں، گھونسوں اور خشت باری پر منتج ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں چین نے بڑے پیمانے پر فوجی نقل و حمل شروع کردی ہے اور انڈیا کے اندر گھس کر بیٹھ گیا ہے۔ انڈیا فارن آفس نے اس کا ردعمل بڑا عاجزانہ دیا ہے۔ جارحانہ نہیں۔ جیسے وہ پاکستان کے بارے میں دیتا ہے۔ نئی دہلی میں تعینات چینی سفیر نے بھی معاملہ کو پرامن اور مذاکرات کے ساتھ حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جوہری، معاشی اور فوجی طاقت کا اگر موازنہ کیا جائے تو چین ہندوستان سے بہت مضبوط پوزیشن میں ہے۔ ہندوستان کا دفاعی بجٹ اکھتر بلین ڈالر ہے جب کہ چین کا دفاعی بجٹ دو سو اکسٹھ بلین ڈالر ہے یعنی تین گنا زیادہ۔ یہ بات تو طے ہے کہ ہندوستان اور چین کا کسی بھی شعبہ میں مقابلہ نہیں ہے چین ہر لحاظ سے طاقتور ملک ہے اور پھر اقوام متحدہ کا مستقل ممبر ہے یعنی اس کے پاس ویٹو پاور ہے۔
27 مئی کو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئیٹ کے ذریعہ دونوں ملکوں کو ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ پاکستان کا دفتر خارجہ بھی پوری طرح میدان میں اتر چکا ہے۔ پاکستان، انڈیا، چین، امریکہ سمیت پوری دنیا کا مین اسٹریم میڈیا اس وقت بڑھتا ہوا سرحدی تنازعہ زیربحث لا رہا ہے۔ جس سے کسی حد تک کرونا سے دنیا کی توجہ ہٹنا شروع ہو گئی ہے۔ اب اسی موضوع پر لکھا اور بولا جارہا ہے۔
آخر نریندر مودی کی حکومت ہمسایہ ممالک سے پرامن طور پر رہنے کے لئے کیوں تیار نہیں؟ ہندوستان کی ہمسائیگی میں پاکستان، چین، بنگلہ دیش، نیپال اور ایران ہیں۔ ان میں سے ایران کو نکال کر سب ملکوں کے ساتھ ہندوستان مختلف مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ نریندر مودی اور اس کی بدمعاش ٹیم جوکہ آر ایس ایس کے نظریہ کو لے کر چل رہی ہے جس کا بنیادی مقصد ہندوستان کو مکمل ہندو دیش بنانا ہے اور خطہ میں اس کو طاقتور ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا نظریہ گالی اور گولی ہے۔ یہ نظریہ قابل عمل نہیں ہے۔
ہندوستان کی سینکڑوں سال پرانی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں محمد بن قاسم سے پہلے اسلام نہیں تھا۔ صرف اور صرف ہندو آباد تھے۔ محمد بن قاسم نے جب دیبل (کراچی) پر حملہ کیا اور فتح کے جھنڈے گاڑ دیئے اور یہاں اپنے لوگوں کو آباد کرنا شروع کردیا اور آہستہ آہستہ اسلام پھیلنا شروع ہوا۔ اس وقت بھی مسلمان عسکری طور پر طاقتور تھے اور اب بھی ہیں لیکن فرق کیا ہے؟ کہ اس وقت ان میں جذبہ ایمانی تھا اور اب وہ جذیہ نظر نہیں آتا۔ وگرنہ جس طرح پچھلے ستر سال سے زائد کشمیریوں پر ظلم توڑے جارہے ہیں اور ہندوستان کی دوسری اقلیتوں سے بڑھ کر مسلمانوں کو چن چن کر ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عالم اسلام میں اگر کوئی محمد بن قاسم، ٹیپو سلطان یا صلاح الدین ایوبی ہوتا تو اب تک ہندو بنیا سے کشمیریوں کو آزاد کراچکا ہوتا۔ بعض ہندو پنڈتوں کا تجزیہ ہے کہ ہندوستان کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب اگر تین فیصد کے قریب ہو گیا تو یہ ہمیں پچھلے ادوار کی طرح دوبارہ محکوم بنا لیں گے۔ ہندوستان پر حکومت کرنے والے مسلمان بادشاہوں کی عددی اکثریت ہندوﺅں سے ہمیشہ کم تھی مگر عسکری اور جذبہ ایمانی کی طاقت بہت زیادہ تھی۔ اسی وجہ سے اقلیتی مسلمان حکمرانوں نے اکثریتی ہندوﺅں پر سینکڑوں سال حکومت کی۔ موجودہ شرح کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 14.2 فیصد ہے جس کی کٹر ہندو پنڈتوں کو بہت چنتا ہے کہ اگر یہ تعداد بڑھتی رہی تو ایک دن ہم پھر غلام بن جائیں گے۔
آئیے ایک اور پہلو سے اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔ فرض کر لیجئے کہ ہم تقسیم ہندوستان کے پہلے والے دور میں ہیں جو کہ موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش پر مشتمل تھا۔ اس وقت بنگلہ دیش کی آبادی ستر کروڑ ہے۔ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے۔ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد بھی بائیس کروڑ سے زائد ہے۔ اس طرح اس خطہ میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 65 کروڑ بنتی ہے۔ سکھوں کی تعداد 12 کروڑ ہے جب کہ عیسائیوں، بدھ مت اور دیگر اقلیتوں کی تعداد 15 کروڑ کے لگ بھگ ہے یہ سب اگر ہندوﺅں کے خلاف اکھٹے ہو جائیں تو ان کی تعداد 92 کروڑ بنتی ہے اور اس کے مقابلے میں ہندوﺅں کی تعداد تقریباً 78 کروڑ رہ جاتی ہے جو کہ اقلیت ظاہر کرتی ہے۔ آج اگر یہ اعداد و شمار ہوتے تو ہندوستان میں ہندو کبھی بھی برسر اقتدار نہ آتے۔ اور نہ ہی نریندر مودی جیسے چائے بیچنے والے کو حکومت ملتی۔ آر ایس ایس کی غنڈہ گردی صرف اور صرف حکومتی چھتری کے نیچے ہے اگر حکومت کی سرپرستی حاصل نہ ہو تو یہ بڑے بزدل لوگ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ہندو پرامن لوگ ہیں اور بزدل بھی یہ صرف اور صرف نریندر مودی کی شہہ پر اقلیتوں کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں۔ نریندر مودی کا علاقہ کی پاور بننے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان ک چاروں طرف خطرات منڈلا رہے ہیں ایک طرف چین اور پاکستان جیسے جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک اور دوسری طرف اگر تصور کرلیا جائے کہ کسی بھی وقت مسلمانوں کے اندر جذبہ ایمانی اور بھائی چارہ پیدا ہو جائے تو ہندوستان کے لئے بہت بڑا خطرہ ہو سکتا ہے یعنی ایک طرف پاکستان، بنگلہ دیش، ایران اور افغانستان، چاروں برادر اسلامی ممالک اگر اکٹھے ہو جائیں تو ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اور ہندو لالے اور پنڈت ماتھے پر تلک لگائے مندروں کی گھنٹیاں بجانے تک محدود ہو جائیں گے۔ لہذا نریندر مودی کو اپنی احمقانہ پالیسیوں پر نظرثانی کرنا چاہئے، ہمسایوں سے پرامن تعلقات رکھنے چاہئیں، ہندوستان کے اندرونی مسائل پر توجہ دے اور غربت کا خاتمہ کرے گا۔ چان دپر نہ تھوکے وہ اسی کے منہ پر آگرے گی۔ چین، انڈیا موجودہ صورت حال وقت ہے جلد ٹھیک ہو جائے گا کیوں کہ یہ خطہ جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں