عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 528

چور مچائے شور

”پوری کے چکر میں پڑو گے تو آدھی سے بھی جاﺅ گے“ اس کہاوت کو مدنظر رکھ کر کیے جانے والے فیصلوں نے پاکستان کی جمہوریت کو بالخصوص اور ریاست پاکستان کو بالعموم تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کردیا ہے بظاہر یہ کہاوت لالچ سے انسان کو روکنے کے معنی میں استعمال ہوتی ہے مگر شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم کے منطق کو اگر سامنے رکھ کر سوچا جائے تو اس پر عمل کرنے سے وقتی فائدہ تو ہے لیکن آگے جا کر نقصان ہی نقصان ہے۔ جس کا خمیازہ آج پوری قوم مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان اور سود کی ادائیگی کی صورت میں ملک بھگت رہا ہے۔ پچھلی دونوں حکومتوں نے جس طرح کا مذاق مل کی معیشت اور خود جمہوریت اور آئین کے ساتھ کیا اس کی مثال پوری تاریخِ جمہوریت میں ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملے گی۔ نواز شریف اور زرداری کے ادوار میں ڈالرز کی قیمت نہیں بڑھی اور نہ ہی عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادا گیا اور نہ ہی ضروریات زندگی کی اشیاءکی قیمتوں میں کوئی اضافہ ہوا، کیوں۔۔۔۔؟ کیا زرداری اور نواز شریف کے پاس کوئی جادو کی چھڑی تھی کہ جس کو گھما کر وہ یہ سب کچھ کنٹرول کررہے تھے؟ جی نہیں، وہ تو اسی کہاوت ”پوری کے چکر میں پڑو گے تو آدھی سے بھی جاﺅ گے“ کے فارمولے پر عمل کررہے تھے۔ ان دونوں ادوار میں ”سبسڈی“ سے کام لیا گیا۔ کھل کر سبسڈی پر کھربوں روپے خرچ کرکے مصنوعی طریقے سے مہنگائی کو روکتے رہے، ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرتے رہے اور ملکی خزانے پر بوجھ بڑھاتے رہے۔ اس سارے گورکھ دھندے میں پاکستان کو قرضہ دینے والے اور قرضہ لینے والے برابر کے شریک تھے۔ ایک ذاتی مفاد کو اور دوسرا ادارے کے مفاد کو مدنظر رکھ کر کارروائی کرتا رہا، نتیجے میں نوازشریف اور زرداری کے ادوار اچھے گزرے لیکن ملک پر قرضہ بڑھتا رہا جب کہ آئی ایم ایف کے سود کی مد میں منافع کے بڑھ جانے کے ساتھ ملکی معاملات میں مداخلت کے ذرائع بھی بڑھتے گئے یہ سب اسی زہریلی کہاوت پر عمل درآمد کا نتیجہ تھا، دونوں حکومتوں نے صرف اپنے ادوار کو بہتر طریقے سے گزارنے کے لئے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اسی طرح سے آئین میں ترمیم کو بچوں کا کھیل بنا دیا گیا تھا۔ اپنی لوٹ مار اور غیر قانونی سرگرمیوں کو تحفظ دینے کے لئے اپنے بچاﺅ کے قانون بنائے گئے۔ جن میں پروڈکشن آرڈر اور احتساب بیورو کے چیئرمین کے تقرر کو ہاﺅس آف لیڈر اور اپوزیشن کی مشاورت سے مشروط کرنے کے قانون خاص طور سے شامل ہیں۔ یہ وہ شرمناک اور جمہوریت دشمن قانون ہیں جن کی مثال کسی بھی جمہوری ملک میں نہیں ملے گی۔ ان قوانین کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت کرپشن کے خاتمے اور خود اراکین اسمبلی سے کسی بھی طرح کی پوچھ گچھ کے لئے کتنی سنجیدہ ہے بلکہ یہ دونوں آئینی ترامیم پوری پارلیمنٹ کو قانون سے بالاتر بنا رہی ہیں۔ ان قوانین کے ہوتے ہوئے سیاستدانوں کا احتساب کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ جس کے مظاہر ان دنوں ہر کسی کو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ابھی کسی سیاستدان ممبر پارلیمنٹ کی گرفتاری کے آرڈر کی سیاہی بھی خشک نہ ہو پائی ہوتی ہے کہ اس کا پروڈکشن آرڈر جاری کرکے اسے اسمبلی کے فلور پر ملکی اداروں کی تذلیل کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد جمہوریت اپنے دل کا غبار نکال کر ملکی اداروں کو دباﺅ میں لانے کی کوشش کرتی ہے یہ خود قانون اور انصاف کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟ اور اگر ان قومی لٹیرے چوروں کو جیل بھج دیا جاتا ہے تو وہاں ان کی الگ آﺅ بھگت شروع ہو جاتی ہے۔ جیل کا شاہانہ کلاس انہیں دے دیا جاتا ہے اس طرح سے لگتا ہے کہ وہ جیل میں نہیں کسی ”فائیو اسٹار ہوٹل“ میں آئے ہیں ان سے عام قیدیوں جیسا سلوک کیوں نہیں کیا جاتا۔ انہیں ان کی گرفتاری اور ان کے جرائم کرنے کا احساس کیوں نہیں کروایا جاتا؟
جب تک سزاﺅں کے ذریعے کسی بھی مجرم کو اس کی غلطی یا گناہ کا احساس نہیں دلایا جاتا اس وقت تک وہ اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا اور جب تک کوئی اعتراف نہیں کرتا، اس وقت تک اس کی اصلاح ممکن نہیں۔ یہ ہی سب کچھ ان دنوں وطن عزیز میں ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم عمران خان کا وژن متذکرہ بالا کہاوت کے بالکل برعکس ہے، ان کی سوچ بالکل اس بوڑھے چینی باشندے کی طرح سے ہے جس کی عمر 85 برس تھی اور وہ ایک ناریل کا پودا لگا رہا تھا جس پر لوگ اسے کہتے تھے کہ تم جس ناریل کا پودا لگا رہے ہو، نہ تو تمہیں اس کا ناریل کھانے کو ملے گا اور نہ ہی اس کا سایہ۔ اس لئے کہ جب تک یہ پودا درخت بنے گا اس وقت تک تم مٹی ہو چکے ہو گے جس پر اس بوڑھے چینی باشندے نے کہا کہ ”یہ پودا میں اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے بیٹوں اور ان کے بیٹوں کے لئے لگا رہا ہوں اس لئے کہ جس درخت کے سائے سے میں آج مستفید ہو رہا ہوں وہ بھی تو کسی نے لگائے تھے“۔ اسی طرح سے وزیر اعظم عمران خان کے یہ موجودہ اقدامات آنے والی نسل کی بہتری کے لئے ہیں وہ پاکستانیوں کو ایک شاندار ”کل“ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ آئین سے پروڈکشن آرڈر جیسے قانون دشمن آئینی ترامیم کو دور کرنے کے لئے قانون سازی کررہے ہیں اور اسی مقصد کے لئے ایوان میں اپنے نمبر پورے کرنے کے لئے وہی حربے اختیار کررہے ہیں جو اس جمہوریت کا خاصہ ہے۔ جس پر پاکستانی لفالفہ صحافت واویلا بھی مچا رہا ہے۔
میرے خیالمیں اگر زہر سے کسی کا علاج ہو جائے تو وہ زہر، زہر نہیں رہتا بلکہ امرت بن جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ آئین میں ترمیم کے لئے تمام حربے استعمال کریں۔ ملک میں رولز آف لاءکو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کریں جب کہ ملکی اداروں کو چاہئے کہ ایک بہتر اور ابھرتے ہوئے پاکستان کے لئے وزیر اعظم عمران خان کا ساتھ دیں اور ایوان کو گندے انڈوں سے پاک کرنے کے لئے ملکی ادارے بے خوف و خطر اپنی مہم جاری رکھیں۔ انہیں 22 کروڑ عوام کی حمایت حاصل ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں