(رپورٹ: سکندر ابوالخیر)
”شمیم آزر کی شاعری براہ راست دل پر اثر کرتی ہے، ان کے امتیازات میں زبان کا خلّاقانہ استعمال شامل ہے۔“
ان خیالات کا اظہار اردو ادب کے انتہائی معتبر شاعر جناب ولی عالم شاہین صاحب نے اپنے خطبہ صدارت میں کیا جو اتوار 29 ستمبر 2024 سہ پہر مسی ساگا کے کمیونٹی سینٹر میں ارباب قلم کینیڈا کی جانب سے منعقدہ، ڈاکٹر شمیم آزر صاحب کی کتاب “خواب خواب اندیشے” کی تقریب رونمائی اور مکالمے کی محفل میں آٹوا سے خصوصی طور پر تشریف لائے تھے۔ کینیڈا میں مقیم بزرگ ترین عالمی شہرت یافتہ شاعر جناب ولی عالم شاہین صاحب خود سات شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ ان کی اس محفل میں شرکت اس کو زینت اور اعتبار فراہم کرنے کا ذریعہ اور کامیابی کی ضمانت تھی۔ ڈاکٹر شمیم آزر صاحب کی خوبصورت کتاب کی تقریبِ رونمائی میں آپ کے چار چاند لگاتے کلیدی خطبے نے آزر صاحب کی شاعری اور ان کی کتاب پر مفصل اور باریک بینی کے ساتھ روشنی ڈالی۔ یہ خطبہ تمام ادب دوست حاضرین کی سرشاری کا باعث رہا۔
شاہین صاحب نے ڈاکٹر شمیم آزر کی شاعری پر بات کرتے ہوئے اسے دل کی شاعری قرار دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ گورکھپور کی خاک، پانی، ہوا اور آگ کے آمیزے میں ڈھاکہ، کراچی، ملائشیا، جزائرغرب الہند اور شمالی امریکہ کے بیشتر نامعلوم گوشوں کو اندیشہ ہائے دور دراز کی تلوار کے سائے تلے منور کرنے کے عمل میں گردشِ ایام کے کتنے اثرات قبول کیے اس کا جائزہ لینا آسان نہیں ہے۔ شمیم آزر نے بہت جہاں گردی کی ہے، ان کی روداد یقینی طور پر دلچسپ ہوگی۔ اور اسی کے ساتھ انسانی نفسیات کے شیشہ و آہنگ سے ٹکرانے کا لامتناہی سلسلہ بھی کم دلآویز نہیں ہوگا۔ شمیم آزر با صلاحیت با ہمت، نیک صفت اور انسانیت کا درد رکھنے والے خوش مزاج انسان ہیں جن کی قدریں کشمکش کے دوران بھی ماند نہیں پڑتیں۔ شمیم آزر اپنے جذبات اور احساسات کی ثابت قدمی سے استفادہ کرتے نظر آتے ہیں اور اپنی ریاضت سے اپنی فطری ودیعت میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔ ان کے یہاں جہاں حدبندیاں ہیں وہیں شدت کی فراوانی بھی ہے۔ اچھے شاعر کی بڑی خصوصیت اس کا اپنی حدود کا پتہ ہونا ہے اور شمیم آزر اس ہنر سے واقف ہیں۔ان کا شعری مجموعہ خواب خواب اندیشے بڑی حد تک ان کی شخصیت کی توسیع بھی ہے۔ ان کی شاعری میں پیشہ ورانہ ماحول کی بھر پور عکاسی ملتی ہے۔ تعلیم کے دوران، قبل اور بعد کے مراحل کے مختلف پڑاو¿ پر ٹھہراو¿ اور تضاد کے عمل نے اس میں دلکشی پیدا کی ہے۔ وطن سے محبت اور اس کے دگرگوں حالات کا نوحہ اور مایوسی کے حالات میں رجائیت کی جھلکیاں ان کی شخصیت میں کئی شخصیتوں کی موجودگی کا اظہار کرتی ہیں۔ ان حالات میں تصادم کا شائبہ کچھ زیادہ ہی ابھر کر سامنے آتا ہے۔ شاعر کا کام سوال پیدا کرنا ہوتا ہے اور ان کی شاعری اس میں کامیاب ہے۔ فکروفن کے امتزاج نے ان کی شاعری کے حق میں سونے پہ سہاگہ کا کام کیا۔ بزم آرائی کے فنکارانہ شعری اظہار میں بین السطور ایک مہذب تربیت یافتہ ذہن نمودار ہوتا ہے۔
شمیم آزر نے ڈاو¿ میڈیکل کالج کے احاطے میں “یم یم” کے درخت کو بطور خاص اس طرح جگہ دی ہے کہ وہ ایک شعری علامت بن گیا ہے۔ یہ کہنہ درخت ایک قابل اعتبار رازدار اور غم گسار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔شمیم آزر کے امتیازات میں زبان کا خلاقان استعمال اور سلاست شامل ہیں۔ اس میں ابلاغ بہت ہے اور پیچیدگی سے مبرا ہے اور بغیر کسی رکاوٹ کے دل میں اتر جاتی ہے۔ انہوں نے کسی ادبی تحریک یا رجحان کا سہارا نہیں لیا، ان کی فکر کا منبع آس پاس کی دنیا، ذات و کائنات کے مظاہر، انسانی قدروں کی پاسداری اور اپنے مطالعے کی قوس قزح کی عطا ہے۔سچی بات اپنے انداز میں کہنا اچھی شاعری کی اساس ہے، شمیم آزر یہ ہنر جانتے ہیں۔ ان کی قادر الکلامی ان کی غزلوں اور نظموں دونوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ولی عالم شاہین صاحب نے شمیم آزر کے منتخب اشعار سنائے
میں چاہتا تھا پلٹ آو¿ں اس سفر سے اب
پر اس سفر میں پلٹنے کی رسم تھی ہی نہیں
اعتماد ایسا بلکتے ہوئے بچے کے لیے
ڈھونڈ ہی لایا تھا صحراو¿ں میں پانی کوئی
موسم کے سرد ہاتھ کسی بےوفا کے تھے
سوکھے ہوئے وہ پیڑ تو زخمی ہوا کے تھے
ہم ملے ترکِ تعلق کے ارادے لے کر
کیسے دکھ سونپ گئے قرب کے لمحے اب کے
ولی عالم شاہین صاحب سے قبل جن مقررین نے خطاب کیا ان میں ٹورانٹو میں مقیم نہایت سینئر اور معتبر شاعر جناب راشد حسین راشد صاحب نے پر جوش خطاب میں شمیم آزر کو بنیادی طور پر ایک رومانی شاعر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ شمیم آزر نے اردو شاعری کو نئے احساسات، زاویے اور لہجے عطا کیے ہیں۔ شمیم آزر پیشہ کے اعتبار سے ناک کان اور حلق کے سرجن ہیں، ان کے پیشہ اور شاعری کو راشد حسین نے اس طرح بیان کیا، “وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اپنی شاعری کی مدھر نغماتی چاشنی سے کانوں میں رس کیسے گھولا جاسکتا ہے، اس کی ہوشربا خوشبو سے فضاو¿ں کو کیسے معطر کیا جا سکتا ہے اور اس کی بادہءارغوانی سے تشنگان شعروادب کے حلقوم کو کیسے تر کیا جا سکتا ہے۔ وہ تیشہءآزر بن کر وہ اصناف تراش رہے ہیں جو انفرادی ہوتے ہوئے بھی اجتماعی صورتوں کی عکاسی کرتے ہیں، ان کی آپ بیتی جگ بیتی بن جاتی ہے۔شمیم آزر کا تخلیقی مزاج روایتی آرائش و زیبائش کو خاطر میں نہیں لاتا بلکہ ان کا ذہن منظر نامے پر بکھری ہوئی بظاہر چھوٹی چھوٹی سچائیوں سے احساس کی کائنات تک پہنچ جاتا ہے چنانچہ اکثر و بیشتر خوبصورت تراکیب اور علامات سے اجتناب برت کر بھی وہ عام مشاہدے سے فلسفیانہ طرز اور مدعا بیان کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ راشد حسین راشد نے شمیم آزر کے منتخب اشعار پیش کیے جن میں پچاس برس پہلے لکھی نظم بغاوت بھی تھی جو اپنے مزاحمتی لہجے اور تیور سے آج بھی تروتازہ ہے۔ یادیں شمیم آزر کا قیمتی سرمایہ ہیں جو ماضی کے جھروکوں سے در آتی ہیں اور مسامِ جاں کو معطر کر جاتی ہیں۔
گاو¿ں کی وہ ندی وہ درختوں کے سلسلے
مبہم سے کچھ نقوش خیالوں کے جال میں
آزر کی شاعری میں رجائیت بھی ہے اور زندگی کو خوب سے خوب تر دیکھنے کی تمنا بھی۔ وہ اک دیے کے جلنے سے ہزاروں دیے جلنے کی آرزو کرتے ہیں۔
ارباب قلم کینیڈا کے بانی رکن فیصل عظیم نے ہمیشہ کی طرح شمیم آزر کی شاعری کی گہرائی میں جاکر اپنا مضمون پیش کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ شمیم آزر لفظوں سے خوابوں کے پیکر تراشتے ہیں۔ ان کی نظمیں پابند، آزاد، معرا اور نثری بھی ہیں۔ ان کے یہاں محبت، انسان اور وطن کے استعارے بدلتے رہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں یاد ماضی کا خاصہ دخل ہے اور یہ کتاب ان ادوار کی کہانی سناتی ہے۔ ان کے کلام میں ہلکے دھوئیں کے پیچھے کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔
آسمانوں سے زمینوں کا تعلق کتنا
جیسے مل جائیں کہیں دور بہت دور کہیں
وہ مسلسل جسمانی اور معنوی سفر میں ہیں۔ ہجرت در ہجرت، یاد اور اس کا کرب پوری کیفیت کے ساتھ ملتے ہیں
ہم پر تو زندگی کے عجب راز وا ہوئے
اے دوست تو بتا وہ ترے خواب کیا ہوئے
زمیں سے کی تھیں کبھی بے وفائیاں میں نے
سو اب عذاب میں سہتا ہوں بے زمینی کے
وہ اپنے اطراف سے بھی جڑے رہتے ہیں اور معاشرے اور حالات پر بھی قلم اٹھاتے رہتے ہیں جن میں الجھن اور طنز بھی ملتے ہیں
ہم نے ہر ایک شاخِ ثمر بار کاٹ دی
توجیح یہ کہ اب کبھی پتھر نہ آئیں گے
ان کے یہاں جوانی کے ولولے اور بغاوت کے جذبات نظر آتے ہیں
شہر والوں پہ تھا آسیب کا سایہ جیسے
جسم و جاں راکھ ہوئے لوگ نہ جاگے اب کے
فیصل عظیم کا کہنا تھا کہ شمیم آزر کی نثری نظمیں شعری تاثر کو نہیں کھوتیں۔
” مجھے بس اتنا یقین دلا دو/ کہ جب میں صحرا کی خاک اڑاتا ہوا /پہاڑوں کو کاٹ کر جوئے شیر لاو¿ں/ تو اپنے تیشہ سے خود ہی سر پھوڑ کر مجھے/ خودکشی نہ کرنی پڑے“
ارباب قلم کینیڈا کے رکن جناب انور کاظمی صاحب نے بھی خواب خواب اندیشے پر اپنا تبصرہ پیش کیا۔
انہوں نے اس کتاب میں شامل موضوعات کا احاطہ کیا جس میں نصیحتیں، زندگی کا سفر، ہجرت کے واقعات اور عشق و محبت کی باتیں بھی ہیں۔
تیرگی کے جنگل میں کم نہیں ہے اک جگنو
تم بس اپنے حصہ کا اک دیا جلا دینا
انہوں نے حاضرین کو مطلع کیا کہ شمیم آزر کا یہ شعر سول ہسپتال کے سرجیکل وارڈ میں لکھا ہوا ہے۔
ہجرتوں کے احساس بارے یہ شعر پیش کیا
اک شہر تھا بسا ہوا خواب و خیال میں
گم ہو کے رہ گیا ہے کہیں ماہ و سال میں
زندگی کی بابت:
سمٹتی جا رہی ہے ساعت عمر
اور اب تک کام سب پھیلے ہوئے ہیں
محبت اور عشق کے لیے
محبت چاہنے والوں کو اپنے ہمیشہ آزمانا چاہتی ہے
یہ اپنے جیتنے والوں کی خاطر خود اکثر ہار جانا چاہتی ہے
انور کاظمی صاحب نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ کتاب میں نظم لکھنے کا مقام، تاریخ، حتی کہ وقت بھی درج ہے۔ کچھ مقامات اور وقت دیکھ کر قاری حیران بھی ہوتا ہے اور محظوظ بھی۔
مقررین کے مضامین کے بعد کتاب کی رونمائی ہوئی اور شمیم آزر صاحب کو پھولوں کا گلدستہ پیش کیا گیا۔سکندر ابولخیر جو نظامت کے فرائض انجام دے رہے تھے، نے اپنے مختصر تبصرے میں کہا کہ شمیم آزر صاحب کا تعلق گورکھپور جیسی زرخیز زمین سے ہے اور سولہ برس تک وہ بنگال کی حسین فضاو¿ں میں بھی رہے لیکن جو زرخیزی ان کو ڈاو¿ میڈیکل کالج میں میسر ہوئی اس کا جواب نہیں۔
ارباب قلم کینیڈا کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے شمیم آزر صاحب سے کچھ مکالمہ بھی ہوا۔ پہلے دو سوالات سکندر ابولخیر نے کیے۔ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے ابتدائی ایام میں جو مطالعہ کیا ان میں اکثر لکھنے والوں کی وابستگی ترقی پسند تحریک سے تھی، پھر آپ پر اس کا کوئی خاطر خواہ اثر کیوں نہیں ہوا؟اس کے جواب میں فرمایا کہ وہ ارتقائی سفر کا دور تھا۔ یہ بات درست ہے کہ میرے مطالعہ میں بیشتر کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا اور وہ اس تحریک کا بھرپور زمانہ تھا۔ شاعری نعرہ بازی کا نام نہیں ہے بلکہ شاعری خود ایک تحریک ہے جو اندر موجود ہوتی ہے جس کا اظہار آپ مختلف انداز میں کرتے رہتے ہیں۔
ان سے پوچھا گیا کہ ملائشیا کے سولہ سالہ قیام میں آپ نے خود کو شاعری جاری رکھنے کے لیے کیسے موٹیویٹ کیا؟جواب میں فرمایا کہ وہاں مشاعرے میں شرکت کے مواقع نہیں تھے۔ شعر لکھتا تھا اور رکھ دیتا تھا۔ مگر شاعری آپ کی فطرت کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔ آپ کی عادتیں بدل سکتی ہیں مگر فطرت نہیں تو شاعری ان نامساعد حالات میں بھی جاری رہی۔
ارباب قلم کینیڈا کے رکن جنید اختر نے سوال کیا کہ آپ آمد کے قائل ہیں کہ آورد کے؟ مختصر جواب دیا کہ میں بے ساختگی کا قائل ہوں۔
آزر تخلص رکھنے کی وجہ پوچھی گئی تو جواب میں ایک شعر پڑھا۔
لوگ تو پوجیں گے خود میرے تراشیدہ خدا
کون ہے آزر خدائے فکر و فن دیکھے گا کون
آخیر میں ڈاکٹر شمیم آزر صاحب نے تمام مہمانوں، مقررین اور ارباب قلم کینیڈا کا شکریہ ادا کیا اور اپنے کلام سے حاضرین کی داد وصول کی
راستے الجھتے ہیں آج بھی مسافر سے
پوچھتے ہیں تم کب تک یوں پھرو گے آوارہ
مری رگوں میں اسی خون کی حرارت ہے
کہ جس کے آبا نے سر دے دیا جھکایا نہیں
تمہیں وہ لذت درد آشنائی کیا معلوم
کہ تم نے زخم لگایا ہے زخم کھایا نہیں
ہمیں ملال تھا، لیکن ترے بچھڑنے تک
سنبھالتے رہے ہر چیز گھر اجڑنے تک
عجب غرور تھا دل کو تری رفاقت کا
یقین ہی نہیں آیا ترے بچھڑنے تک
مرے قبیلے میں پسپائی کا رواج نہیں
سو قتل ہونا ہے مجھ کو قدم اکھڑنے تک
یہ سانحہ تو اچانک نہیں ہوا آزر
بہت اشارے تھے حالات کے بگڑنے تک
اس تقریب میں خواب خواب اندیشے کی جلدیں فروخت کے لیے موجود تھیں جن کی ساری رقم دی سٹیزن فاو¿نڈیشنTCF کینیڈا کوعطیہ کردی گئیں۔ یہ ادارہ پاکستان میں پسماندہ علاقوں کے بچوں کی تعلیم خصوصی طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کرتا ہے جس کے زیر نگرانی 1921 اسکولوں میں 286،000 طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔تقریب میں ٹورانٹو اور اطراف کے ادب دوست افراد کی بڑی تعداد نے شرکت فرمائی اور پسندیدگی کا اظہار کیا۔ مہمانوں کی خاطر مدارات چائے اور لوازمات سے کی گئی۔ ساڑھے تین بجے شروع ہونے والی یہ ادبی تقریب 6 بجے تک جاری رہی۔
