امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 362

کورونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری کی وبا

گزشتہ کئی ہفتوں سے آپ ایک نئی بیماری کے بارے میں س±ن اور پڑھ رہے ہوں گے۔ اس بیماری کو کورونا وائرس کا نام دیا گیا ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ ’وائرس‘ ایک بہت ہی چھوٹا جرثومہ ہوتا ہے جو صرف انتہائی طاقتور خورد بینوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ کورونا جرثوموں کو یہ نام اس لیئے دیا گیا ہے کہ جب اسے خورد بین سے دیکھیں تو یہ ایک تاج نما دائرہ لگتاہے۔ یہ جرثومہ سینے یا سانس کی بیماری پھیلاتا ہے۔ عام طور پر اس کی علامتیں ذکام یا انفلﺅنزا کی طرح کی ہوتی ہیں۔ اگر کوئی شخص اس کا شکار ہو جائے تو یہ علامتیں شروع شروع میں انسانی جسم میں تقریباً دو ہفتوں تک چھپی رہتی ہیں۔ اس دوران اس بیماری کا شکار شخص کھانسی، چھینک ، یا دیگر انسانوں سے اختلاط سے اس کو اور پھیلا دیتا ہے۔ گو ذکام کی طرح سے یہ خود خود ہی ختم ہو جاتا ہے ، لیکن وہ اشخاص جن کی قوتِ مدافعت کمزور ہو ، موت کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ انفلوئنزا کی طرح یہ بھی بہت تیزی سے پھیل کر سینکڑوں ، ہزاروں افراد کو شکار بنا سکتا ہے۔
اب تک یہ قطعی طور پر متعین نہیں ہو سکا ہے کہ اس وائرس کی ابتدا کیسے اور کہاں ہوئی۔ لیکن قیاس یہ ہے کہ اس کی ابتدا چین کے ایک صوبہ کے بازار میں چمگادڑوں کے ذریعہ انسانوں تک پھیلی۔ شاید آپ کو یہ تعجب ہوکہ انسان اور چمگادڑ کا یہ تعلق کیسے پیدا ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا کے بعض علاقوں کی طرح چین میں بھی طرح طرح کے جانور انسانی خوراک میں استعمال ہوتے ہیں ، ان میں چمگادڑیں ، سانپ، کیڑے مکوڑے، ٹڈیاں، بندر، اور کتوں کا گوشت شامل ہے۔ قیاس یہی ہے کہ اس بازار میں خوراک کے طور پر بیچی جانے والی بیمار چمگاڈریں شاید اس وائرس کے پھیلاﺅ کا پہلا ذریہ بنیں۔ اس سے پہلے اسی قسم کی ایک بیماری بلیوں کے ذریعہ پھیلی، بالخصوص وہ بلیا ں جن کے نگلے ہوئے کافی کے بیج بعض لوگ بصد شوق قیمتی داموں خریدتے ہیں۔ اسی طرح مشرقِ وسطیٰ میں ایسی ہی ایک بیماری اونٹوں کے ذریعہ پھیلی تھی۔ گو اس قسم کی بیماریاں وقتی ہوتی ہیں ، اور ان کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ لیکن انہیں ٹیکوں کے ذریعہ روکا جسکتا ہے، جیسے چیچک ، خسرہ، پولیو، فلو وغیرہ۔ مشکل یہ ہے کہ یہ بیماریاں شروع میںبہت تیزی سے پھیلتی ہیں اور ان کے ٹیکے دریافت کرنے میں اور انہیں انسانوں میں استعمال ہونے تک کم از کم ایک سال لگ سکتا ہے۔ اس دوراں ایسی کوئی بھی بیماری وبا کی طرح پھیل کر شدید نقصان پہنچاتی۔
یہی صورتِ حال اب تک کورونا وائرس کی بھی ہے، اس کا اولین دفاع انسانوں کے مختلف علاقوں میں سفر پر پابندیاں لگا کر کیا گیا۔ اس کی ایک شدید مثال سعودی عرب میں عمرے کے سفر پر پابندی ہے۔ جس کے نتیجہ میں سینکڑوں زائریں کو ہزاروں ڈالر کا نقصان ہونے کا امکان ہے۔ اسی طرح کئی بڑے ملکوں نے چین ، ایران، اور ایسے دیگر ممالک سے انسانی سفر اور تجارتی برآمدات پر پابندی لگادی ہے۔ جس کے نتیجہ میں عالمی بازاروں میں سخت نقصان ہو رہا ہے۔
گو ابھی زیادہ اعداد و شمار موجود نہیں لیکن بعض اندزاوں کے مطابق اب تک اس بیماری کا شکار ہونے اوراموات واقع ہونے کے کچھ اعداد و شمار درجِ ذیل ہیں :
چین: اسی ہزار افراد بیمار، تین ہزار ہلاک۔ جنوبی کوریا: پانچ ہزار افراد بیمار، چونتیس ہلاک۔ ایران : ڈھائی ہزار افراد بیمار ، اسی ہلاک،دیگر ممالک میں یہ بیماری رفتہ رفتہ پھیل رہی یا اور سخت حفاظتی اقدام کیئے جا رہے ہیں دنیا بھر میں اب تک کم از کم بانوے ہزار افراد بیمار اور چار ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس بیماری کے دفاع کے لیے ضرور ہے کہ اس کے ممکنہ شکار لوگوں کو عام افراد سے ایک مدت کے لیے الگ کر دیا جائے۔ یہ مدت تین ہفتہ تک کی ہو سکتی ہے۔ جس علاقہ میں یہ بیماری پھیلنے کا امکان ہو وہاں لوگ چہرے پر بیماری سے بچنے کے نقاب پہنیں۔ یہ کام کسی نہایت صاف رومال یا دوپٹے سے بھی لیا جا سکتا ہے۔ انسانوں کو اپنے ہاتھ صابن سے دھوتے رہنا چاہیے، اور جو لوگ خود سانس کی بیماری ، اور ذکام وغیر ہ کا شکار ہو ں، وہ خود کو رضا کارانہ طور پر دوسروں سے الگ کر لیں، اور فوراً ڈاکٹروں اور ہسپتالوں سے رابطہ کریں۔ اس سے زیادہ ابھی کوئی اور مشورہ نہیں دیا جا سکتا۔ صحت کے عالمی ادارے اور مختلف قومی ادار ے اس ضمن میں احتیاطی تدابیر نشر کر رہے ہیں۔ آپ کوچاہیئے کہ خود بھی ان سے آگاہ ہوں او ر اپنے عزیزوں کو بھی عام فہم زبان میں سمجھانے کی کو شش کریں۔ صحت کے عالمی ادار ے نے اس ضمن میں کئی ویڈیو جاری کیئے ہیں۔ جوانٹرنیٹ پر موجود پتوں پر دیکھے جاسکتے ہیں:

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں