Muhammad Nadeem Columnist and Chief Editor at Times Chicago and Toronto 611

کیا ہم 365 روز صبر کرلیں

ہمیں بہت اچھی طرح یاد ہے کہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ جب ان ڈاکوﺅں اور لٹیروں پر ہاتھ ڈالا جائے گا تو یہ شور مچائیں گے۔ مگر عوام سے درخواست ہے کہ وہ میرے ساتھ کھڑی رہے چنانچہ اب وقت آگیا ہے کہ قوم کو کم از کم ایک سال موجودہ حکومت کے خلاف کچھ نہیں سننا چاہئے۔ کسی سازش کا حصہ بننے سے بھی پرہیز کرنا چاہئے۔ پاکستان کی عوام نے سابقہ حکمرانوں کو کئی کئی بار ایوانوں تک پہنچایا مگر حاصل کیا ہوا؟ بھوک و افلاس، منگائی، قرضوں کا بوجھ، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، کرپٹ وزیر، مشیر اور کرپٹ بیوروکریسی، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے عوام کا خون چوس رہی ہے۔ منافع بخش ادارے اسٹیل ملز، پی آئی اے، نیشنل ریفائنری نقصان میں چلے گئے۔ سیاسی بھرتیوں نے اچھے اور محنتی کارکنوں کا حق مارا۔ جس کی وجہ سے مایوسی پھیلی اور ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہو کر کرپٹ ہوگیا۔ جس کی جس قدر استطاعت تھی اس نے اسی قدر چوری کی۔ مگر موجودہ حکومت نے آنے کے بعد جو اصلاحات کیں اس کے نتیجہ میں حالت بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ موجودہ حکومت کی ناکامی کی نوید ہمارے سابق صدر محترم آصف علی زرداری کی زبان سے کچھ عجیب سی لگی۔ دل چاہا کہ ان سے پوچھیں کہ کس منہ سے یہ عمران خان کی حکومت کو صرف 3 ماہ میں ناکام قرار دے کر مولانا ڈیزل کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔ کس بات کا خوف ان کے سر پر مسلط ہے کہ جو وہ مسلم لیگ نواز سے جوڑ توڑ میں مصروف ہو گئے ہیں۔ چور سپاہی کا کھیل شروع ہو چکا ہے اور تمام چوروں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت سے غلطیاں سرزد ہورہی ہیں کیونکہ وہ کئی ایک مشکلات سے دوچار ہیں۔ خالی خزانہ سے ملک کو چلانا آسان کام نہیں مگر نیت اچھی ہو تو مدد خدا بھی شامل حال رہتی ہے۔ مشکلات ضرور ہیں مگر کچھ نا ممکن نہیں۔ بشرط یہ کہ ایمانداری کے ساتھ تمام ڈاکوﺅں اور چوروں کو جنہوں نے ملک کی جڑوں کو نہ صرف معاشی بلکہ اخلاقی سطح سے بھی نیچے گرا دیا ہے۔ گرفت میں لیا جائے۔ ان کا کڑا احتساب کیا جائے۔ انہیں جیلوں میں ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہیں پیسہ نکلوا کر ملک بدر کیا جائے۔ پاکستان کے بینکوں کے لاکرز چیک کئے جائیں۔ اطلاعات کے مطابق اربوں روپیہ کیش کی صورت میں بینکوں کے لاکرز میں موجود ہے۔ پوچھا جائے کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا۔ حکومت اگر بہتر حکمت عملی سے چلے تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشی طور پر مضبوطی نہ آئے۔
سعودی حکومت کے ساتھ حالیہ ملاقات میں وزیر اعظم عمران خان نے جو تین ارب ڈالر کی امداد حاصل کی ہے اس سے حکومت کو سنبھلنے کا سنہری موقع ملے گا۔ عمران خان کو دیگر مسلم ممالک سے مل کر پاکستان کی صنعتوں کو جو مر رہی ہیں زندہ کرنا چاہئے۔ جس سے نوجوانوں کو روزگار بھی ملے گا اور پاکستان کے خلاف جو سازش اسے کنزیومر نیشن بنانے کی جاری ہے، پاکستان کو اس سے چھٹکارا حاصل ہوگا۔ یوں پاکستان دنیا کی منڈیوں میں اپنی مصنوعات فروخت کرکے زرمبادلہ بھی حاصل کرے گا۔ اور معاشی استحکام کی جانب پیش رفت بھی ہوگی۔ وزیر اعظم کی صفائی مہم کا بھی خاطر خواہ نتیجہ نکلا ہے۔ کوڑا کرکٹ پر لوگوں کو ٹکٹ دیئے جارہے ہیں اور یوں خوف کے عالم میں لوگوں نے اپنے گھروں کے آگے صفائیاں شروع کردی ہیں۔ اسی طرح ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرنے پر عوام چیخ تو رہی ہے مگر عمل بھی کررہی ہے۔ سچ ہے کہ بحیثیت قوم ہم اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ اب ہمیں سیدھا کیا جارہا ہے تو ہم چیخ رہے ہیں۔ مگر وہ وقت دور نہیں کہ جب ہم کہیں گے کہ ہم اندھیروں میں تھے اور سو رہے تھے یہ ہمیں کس نے جگادیا؟ اور قوم کا جگانے کا سہرا عمران خان کے سر ہی جائے گا۔ بشرطیکہ عمران خان کو وقت دیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں