عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 609

گاڈ فادر اِن ایکشن

”قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کیڑے مکوڑے تو پھنستے ہیں مگر بڑے جانور اسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں“۔ یہ تاریخی جملہ یونان کے بڑے فلسفی اور سقراط کے شاگرد افلاطون نے صدیوں قبل کہا تھا لیکن ایسے لگ رہا ہے کہ یہ جملہ انہوں نے خاص طور سے پاکستان کی صورتحال کے بارے میں کہا ہوگا اس لئے کہ یہ جملہ اس کے رُوح کے مطابق اس وقت پاکستان کے عدالتی اور قانونی نظام پر پوری طرح سے منطبق ہو رہا ہے۔ یہاں کا عدالتی نظام بڑے لوگوں کے سامنے ٹھہرنے کے قابل نہیں رہا جس کے مظاہر حال ہی میں سنائے جانے والے چند عدالتی فیصلوں کی شکل میں پوری قوم دیکھ چکی ہے۔ جس سے عدالتی نظام کا مورال بُری طرح سے گرا ہے۔ اور انصاف ایک بار پھر سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے؟ مجرموں کی رہائی کی وجوہ کچھ بھی ہو، انصاف خواب ہی بنتا جارہا ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ انصاف کی کرسیوں پر بیٹھنے والے صاحب انصاف قصور وار کے جرم کو جاننے کے باوجود بڑے بڑے وکلاءکے دلائل اور کمزور کیے جانے والے شہادتوں کی بناءپر انہیں باعزت رہا کرنے کے بجائے سزائیں دیں۔ آخر کب تک شہادتوں کے توڑ جوڑ کے اس گھناﺅنے کھیل کے سامنے انصاف بے بس ہوتا رہے گا؟ آخر کب تک؟ یہ میری نہیں پوری قوم کی آواز ہے، ہر کوئی چاہتا ہے کہ یہاں سب کے ساتھ یکساں انصاف ہو، کسی کے ساتھ بھی اس کے مرتبے کے لحاظ سے کوئی امتیازی سلوک نہ ہو اور افلاطون کا وہ تاریخی جملہ کسی بھی لحاظ سے پاکستان کے عدالتی و قانونی نظام سے مطابقت نہ رکھے بلکہ وہ کسی بھی حوالے سے پاکستان کے عدالتی نظام کی عکاسی نہ کرسکے۔ ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب ججوں کے ساتھ ساتھ وکلاءبھی اپنے ضمیر کے مطابق ان ہی لوگوں کی داد رسی کریں جو نا انصافی کا شکار ہوئے ہوں ان لوگوں کے مقدمات کو ہاتھ نہ لگائیں جو جرائم کے چلتے پھرتے اشتہار بن گئے ہیں جن کے جرائم سائے کی طرح سے ان کا تعاقب کررہے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں تو اس طرح کے مجرموں کی وکالت کرکے انہیں قانون کے شکنجے سے رہا کروانے والے وکیل بھی اتنے ہی سنگین مجرم ہیں جتنے وہ جن کی وہ بھاری فیس لے کر وکالت کررہے ہوتے ہیں۔ پیشہ وکالت قانون کی طرح سے میان سے نکلی ہوئی تلوار نہیں جسے کسی رشتے کی تمیز نہ ہو، وکالت کے پیشہ کا یہ تقاضا ہے کہ وہ برے بھلے میں تمیز کرے۔ میں دعویٰ کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ وکیلوں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جن کی وکالت کررہے ہیں وہ بے گناہ ہیں یا گناہ گار۔۔۔ اور وکلاءکی اکثریت ان ہی لوگوں کی وکالت کرتی نظر آتی ہے۔ جو گناہ گار ہوتے ہیں لیکن ان کے پاس بڑے بڑے وکیلوں کی خدمات لینے کے لئے بھاری بھرکم معاوضہ ہوتا ہے اور جو بے گناہ ہوتے ہیں اور نہ انصافی کے جرم میں جیل ڈال دیئے جاتے ہیں ان کے پاس تو وکیلوں کی خدمات حاصل کرنے کا معاوضہ ہی نہیں ہوتا اور وکیل مفت میں کیس لڑنا جانتے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس کے نتیجے میں ”قانون مکڑی کا جالا بن گیا ہے جس میں کیڑے مکوڑے جو بے گناہ ہونے کے باوجود وکلاءکے دلائل کی محرومی کی وجہس ے پھنس جاتے ہیں اور گناہ گار وکلاءکی چالاکیوں اور مکاریوں سے بھرے دلائل کے ذریعے اس قانونی جال کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔
یہ ہے پاکستان کا المیہ۔۔۔ جس کی وجہ سے پیر کے ناخن سے لے کر سر کے بالوں تک جرائم میں ڈوبے لوگ کسی نہ کسی طرح سے اس ملک اور اس میں رہنے والوں پر حکمرانی کررہے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں نے قانون کو جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے، وہ جب چاہتے ہیں قانون کو ٹھوکر مار دیتے ہیں، کوئی ایک شخص جرائم میں ڈوبے اس معاشرے میں اُٹھ کر کیا کرسکتا ہے؟ کوئی ایک شخص، جی ہاں میرا اشارہ عمران خان کی جانب ہے۔ میں انہیں ایک شخص اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ان کے قافلے میں شامل کوئی ایک بھی ان کے ساتھ مخلص نہیں۔ اس طرح سے سپریم کورٹ کا ایک چیف جسٹس تن تنہا کچھ نہیں کر سکتا، ان کے وژن کو ان کے ساتھی ہی آگے بڑھا سکتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ جرائم میں بری طرح سے لت پت ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ کے جن دانشور ججوں نے ”سسلین مافیا اور گاڈ فادر“ کے الفاظ اپنے کسی فیصلے میں تحریر کئے تھے، دل چاہتا ہے کہ ان ججوں کے میں ہاتھ چوم لوں، اس لئے کہ انہوں نے جو بھی لکھا وہ حرف بہ حرف نہ صرف صحیح تھا بلکہ خود ایک عدالتی فیصلے نے بھی اس پر مہر ثبت کردی ہے اور یہ ثابت کردیا کہ ”گاڈ فادر اور سسلین مافیا“ ہمارے عدالتی نظام سے بھی بالاتر ہیں جن معزز جوں نے کہا تھا کہ ان کے تاریخی فیصلے کو لوگ سالوں یاد رکھیں گے انہوں نے یہ دعویٰ غلط نہیں کیا تھا ان کے اس تاریخی فیصلے کو ”سسلین مافیا اور گاڈ فادر“ جیسے القابات کے استعمال کرنے کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا کیونکہ حالات خود بھی ثابت کررہے ہیں کہ گاڈ فادر کتنا طاقتور ہے؟ کس طرح سے اس نے پورے نظام کو جکڑ کر رکھ دیا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو اپنے اقتدار کے پہلے ہی ماہ میں دوبار نوکر شاہی یعنی بیوروکریسی کو خاص طور سے مخاطب کرنا پڑا انہیں ”سسلین مافیا اور گاڈ فادر“ نے خوف و دبدبے سے نکالنے کی کوشش کی۔ عمران خان کو شاید علم نہیں کہ اس گاڈ فادر کے ہاتھوں ایک دو نہیں لاتعداد مہرے اس بیوروکریسی کا حصہ بن چکے ہیں۔ جو تنخواہیں اور مراعات و اختیارات تو حکومت سے حاصل کرتےہیں مگر ان کے دل ان گاڈ فادرز کے لئے دھڑکتے ہیں۔ ان گاڈ فادرز نے ہی سیاست اور جمہوریت کو اپنا ڈھال بنا رکھا ہے جس کے ذریعے وہ اس طرح کی قانون سازی کرتے ہیں کہ جس سے عدلیہ اور انصاف بھی ان کے سامنے کٹھ پتلی بن کر رہ جاتی ہے۔ اسی وجہ سے عمران خان کو بحیثیت وزیر اعظم پاکستان بعض انقلابی فیصلے کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے ریاست اور سیاست کو ان ”سسلین مافیاز اور گاڈ فادرز“ سے پاک کر کے انہیں قانون اور انصاف کے چابک سے نشان عبرت بنانا ہوگا اس کے بعد ہی ملک میں خوشحالی آئے گی۔ عمران خان کو خود اپنی صفوں میں موجود گاڈ فادرز کے ایجنٹوں کو نکالنا ہوگا۔ عمران خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسے سب سے زیادہ خطرہ اپنوں سے ہے وہ اگر اپنوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے تو اس کے بعد ان کا کوئی حریف نہیں بچے گا۔ انہیں اپنے آستینوں پر خاص نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ گاڈ فادر اور سسلین مافیا اس وقت پورے جوبن کے ساتھ حرکت میں آچکے ہیں جو ریاست اور سیاست میں کسی بھی طرح کا طوفان برپا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں