ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ عمران خان کو وزیر اعظم بننے کا شوق مہنگا پڑ گیا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ”نہ اگلنے جیسے نہ نگلنے جیسے“۔ اس وقت عمران خان کی کیفیت کچھ یوں ہے کہ اپنی فطرت کے برعکس وہ ایکشن کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عمران خان سیاست کے میدان میں نئے ہیں اور اکھاڑے کے داﺅ پیچ سے ناواقف ہیں، وہ سیدھے سیدھے چلنے والے انسان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار میں آنے سے قبل انہوں نے سوچا تھا کہ وزیر اعظم بنتے ہی تمام حالات پر قابو پالیں گے اور منجھدار میں پھنسے ملک کو چند ماہ میں نکال لیں گے اور قوم کے ہیرو بن کر سرخرو ہو سکیں گے مگر وہ بھول گئے کہ جو انہیں اقتدار کی مسند تک لائے ہیں وہ ان سے قبل اسکندر مرزا، ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور بے نظیر کو بھی لائے تھے مگر جہاں انہوں نے دیئے گئے اسکرپٹ سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کی وہیں یا تو اقتدار سے نکال پھینکا یا ملک بدر کیا حتیٰ کہ ٹکٹکی پر لٹکانے سے بھی پرہیز نہیں کیا۔ یہ اتنے ظالم لوگ ہیں کہ جنہوں نے آصف علی زرداری جیسے کرپٹ لوگوں کو صدر کے عہدے تک پہنچایا۔ اس کی کرپشن کی جانب سے آنکھ بند رکھی۔ یہی کچھ نواز شریف کے معاملہ میں کیا گیا۔ پھر عمران خان ہاتھ آگئے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کب عمران خان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے اور نیا پینڈورا بکس کھلتا ہے۔ فی الحال تو ملک میں کھنچاﺅ کی صورتحال ہے۔ ایم کیو ایم کو غداری کا سرٹیفکیٹ مل چکا ہے۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو کرپشن کی سند مل گئی ہے۔ اب اکھاڑے میں عمران خان ہیں، سیاسی، معاشی صورتحال کو درست کرنے میں عمران خان بھاگ دوڑ کررہے ہیں۔ کئی اسلامی ممالک امداد کررہے ہیں مگر مہنگائی پر کنٹرول ناممکن ہوچکا ہے۔ حکومتی مشنری کام کرنے کو تیار نہیں کیونکہ گزشتہ تیس برسوں میں سب افسران کے منہ کو خون لگ چکا ہے اور ایک بار حرام خوری کی عادت پڑ جائے تو پھر واپس سیدھے راستے پر نہ تو آیا جا سکتا ہے اور نہ ہی آنے دیا جاتا ہے۔ سو یوں ملک شدید انتشار کی جانب گامزن ہے۔
پٹھانوں اور پنجابی جنرلوں کے درمیان تناﺅ بڑھ رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں تو پہلے ہی مشکلات کا سامنا کررہی ہیں۔ اب نئی جماعت پشتون تحفظ موومنٹ غیر ملکی آقاﺅں کے اشاروں پر ناچنا شروع کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ ہماری فوجی سیاسی جماعت، عدلیہ کی سیاسی جماعت اور میڈیا کی سیاسی جماعت بھی اپنا اپنا چورن بیچنے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے اس تمام صورتحال کا ڈراپ سین کس نئے طوفان کی شکل میں کب سامنے آتا ہے۔ ہماری پاک فوج بری طرح پھنس چکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج کی مضبوطی وقت کی ضرورت ہے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہماری عوام نے ہمیشہ فوج کو سلوٹ کیا جب جب شہر میں آئی۔ اپنے گھروں کے دروازے اور دل ان کے لئے کھول دیئے۔ پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے کبھی زبان خشک نہیں ہوئی مگر اس پاک فوج نے تو اپنی ہی عوام کا خون خشک کردیا۔ اپنی بندوقوں سے ڈرایا تو اپنے ہی عوام کو اور لہولہان کیا تو اپنے ہی ہم وطنوں کو۔ ملک کے تمام وسائل پر یہ کہہ کر قابض ہو جانا کہ ملک کے لئے جانیں بھی تو ہم دیتے ہیں تو پھر تو دنیا کے بڑے ممالک برطانیہ اور امریکہ جنہیں ہم اپنا مائی باپ کہتے ہیں۔ ان کی افواج بھی ملک کے لئے برسوں اپنے بچوں اور اپنے گھرانوں سے دور رہ کر ملک کی بقا کی جنگ لڑتی رہتی ہیں۔انہیں یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ ملکہ برطانیہ کو اٹھا کر محل سے باہر پھینک دیں کہ ملک کی حفاظت تو وہ کررہے ہیں اور انہی کی وجہ سے ملک بچا ہوا ہے۔ ہماری افواج کے کمانڈروں کو سمجھنا ہو گا کہ یہ ملک پاکستان کے عوام کا ہے اور وہ اس کے پہلے حق دار ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے سارے حب الوطن ہیں اور پاکستانی ہیں۔ انہیں غداری کی فصیل پر بٹھانے والے بھی آپ ہی ہیں مگر آپ سمجھیں تو تمام صوبوں میں انصاف کا بول بالا ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک میں غدار پیدا ہی نہ ہوں۔ کیا وقت تھا کہ ہمارے ناردرن ایریاز کے پٹھان ہمارے ملک کی فوج تھے اور کوئی پرندہ وہاں سے پَر نہیں مار سکتا تھا مگر ہم نے خود اپنے پاﺅں پر کلہاڑی ماری اور افغانستان کی جنگ میں کود کر اپنے بارڈرز کو غیر محفوظ بنا دیا۔ افغانیوں کو جنہوں نے کبھی پاکستان اور پاکستانیوں کو تسلیم نہیں کیا انہیں مسلمان بھائی کہہ کر اپنے گھر میں گھسا دیا۔ ہم نے ایک لمحہ کو نہیں سوچا کہ سعودی عرب میں تو ہمارے دینی دولت مکہ اور مدینہ میں موجود ہے پھر بھی سعودی عرب ہمیں گھسنے نہیں دیتا۔ وہ کبھی عقیدت کے احترام میں ویزے کا اجراءختم نہیں کرے گا کہ ہر ملک کو اپنی سلامتی عزیز ہوتی ہے اور مذہبی معاملات کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم نے جن افغان بھائیوں کو گلے لگایا۔ آج ہم انہیں ملک بدر کرنے کے قانون بنا رہے ہیں۔ افغان باڑھ پر کام کررہے ہیں۔ کاش یہ ہم پہلے سوچ لیتے کہ ملک کی بقاءاور سلامتی اس بات میں مضمر ہے کہ ہماری سرحدیں محفوظ ہوں۔ ہمارے محافظ تو ہمارے فوجی کمانڈرز تھے جو سرحدوں کی حفاظت اور اپنی ذمہ داری چھوڑ کر شہروں میں بس گئے اور سیاسی جوڑ توڑ شروع کردیئے اور جب ”کوّا چلا ہنس کی چال تو اپنی چال بھی بھول گیا“ کے مصداق آج ملک کو وہاں لا کر کھڑا کردیا جہاں عمران خان جیسے ایماندار انسان بھی کچھ کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے ہمارے چہار جانب خطرات منڈلا رہے ہیں، بہتر ہو گا کہ ہم بندوق کی نوک سے حالات کو دُرست کرنے کے بجائے محبت کی زبان استعمال کریں۔ صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے مگر بقول شاعر
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
تو بس اب اپنے عمل سے جس ملک کو جہنم بنا دیا ہے اسی عمل سے اسے جنت بنانا بھی آپ ہی کا کام ہے اور یہ کام آپ کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ آپ کے ہاتھ میں بندوق ہے اور قوم اور عوام لاتوں کے بھوت ہیں یہ باتوں سے نہیں مانیں گے اور انہیں ان لاتوں کی عادت بھی آپ نے ہی ڈالی ہے تو اب وقت آگیا ہے کہ آپ اپنے گزشتہ 70 برسوں میں پھیلائے گند کو صاف کرنے آگے آئیں یا پھر اس ملک کو مزید ٹکڑیوں میں بٹتا دیکھئے گا۔ اللہ وہ وقت نہ لائے، مگر ہمیں ہماری خطاﺅں کو سزا تو ملے گی اور مرنے سے پہلے اس زندگی میں ملے گی۔ اللہ بہت بڑا کارساز ہے مگر ظالم نہیں وہ کافروں کو ہم پر غالب کرنے کی طاقت رکھتا ہے اگر ہم بحیثیت مسلمان انصاف کے تقاضوں سے دور ہیں۔
