تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 537

گورے طالبان

حکمرانوں کے رویے کا اظہار اس ملک کے میڈیا کے ذریعہ ہوتا ہے میڈیا کے اثرات بہت تیزی سے عام لوگوں کے دل و دماغ پر پڑتے ہیں نیوزی لینڈ جیسے دنیا کے پرامن ملک میں اس خون ریز واقعہ نے عالم انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ انسانیت سے محبت رکھنے والے لوگ خون کے آنسو بہانے پر مجبور ہو گئے ہیں، ہر درد منددل رکھنے والا انسان اس واقعہ پر افسردہ ہے، ہر طرف سے اس کی مذمت میں بیان جاری ہو رہے ہیں۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ دنیا میں اس طرح کے حالات کیونکر بڑھ رہے ہیں اور اس کا تدارک کیسے ہو، کوئی اس کو دہشت گردی قرار دے رہا ہے، کوئی اس کو انتہا پسندی کا نام دے رہا ہے۔ دنیا کے ہر کونے سے ہر طقبہ سے اس کو قابل مذمت قرار دیا جارہا ہے۔ جس کی ایک مثال وہ چھوٹا سا بچہ نما نوجوان ہے جس نے اپنے ایک چھوٹے سے ردعمل کے ذریعہ ایک بہت بڑا پیغام دنیا تک پہنچایا ہے کہ ابھی اس قحط و رجال میں انسانیت سے محبت کرنے والے باقی ہیں۔ حالات کو اس تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے اس کا تدارک کیسے ہو، اس کے لئے اوپر سے نیچے کی جانب اور نچلے طبقہ سے اعلیٰ سطح تک مربوط جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔ بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری کیا ہونی چاہئے اس کا تعین ہم نے اب سے تین سال پہلے ستمبر دو ہزار سترہ پر تیزی سے بڑھتے ہوئے اور اس کے منتخب ہونے تک اپنے ایک مضمون میں کیا تھا۔ جس میں ان حالات کا تجزیہ کیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیاب کروانے والوں کی ذہنی کیفیت کیا ہے اور ان حالات کو سامنے رکھ کر جدید تہذیب کو کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اور کیا راستہ اختیار کرنا چاہئے، تین سال پہلے ہی اس کی نشاندہی کردی تھی۔
امریکہ کے انتخابات کے سلسلے میں پہلی صدارتی مباحثہ کے موقع پر ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات کے بارے میں زیادہ آگاہی حاصل ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر ٹرمپ کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے بارے میں بالعموم باہر سے آکر امریکہ میں رہنے والوں کے لئے بالخصوص جس طرح کے منفی خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا تدارک صرف ٹرمپ کے خلاف ووٹ کا استعمال کرکے امریکی معاشرے میں اس طرح کے رجحانات کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ اور کینیڈا کے معاشروں میں جو رواداری اور اخوت کی روایات ہیں ان کو موجودہ انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ ختم کرنا چاہتے ہیں وہ اس بات کی علامات میں سے کہ ہمارے بارے میں لوگوں کے خیالات سے کیا تبدیلی آرہی ہے۔ ان منفی تبدیلیوں کو ہمیں اپنے اچھے طرز عمل سے ختم کرنا ہوگا۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی معاشرت میں گھل مل جائیں اس کے اثرات کینیڈا کے پچھلے انتخابات نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اگر اسٹیفن ہاپر کو تیسری بار اقتدار م لجاتا تو وہ ایسی پالیسیاں مرتب کرنے کا ارادہ رکھتے تھے کہ کینیڈا کے باہر سے آنے والوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنا دیں مگر ان کے ارادوں کو بھانپ کر پورے کینیڈا کے عوام نے انتخابات میں ان کے خلاف ووٹ کا انتخاب کیا یہ کینیڈا کے معاشرے کا حسن ہے جس کو یہاں کے عوام نے کئی عشروں سے نہ صرف قائم و دائم رکھا ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ پروان بھی چڑھایا ہے آج جب ہم کینیڈا کے باہر دوسرے ملکوں کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہو گا دنیا میں تبدیلیاں کتنی تیزی سے پروان چڑھ رہی ہیں دنیا بھر میں وہاں کے مقامی افراد باہر سے آنے والوں سے نالاں نظر آتے ہیں ان کے معاشرے دو طبقوں میں بدل گئے، ایک طبقہ وہ ہیں جو غیر مقامی لوگوں کو ناپسند کرتے ہیں دوسرے وہ ہیں جو اپنی اس رواداری کو قائم و دائم رکھنا چاہتے ہیں دنیا کے ایک کونے میں نیتن یاہو کی حکومت ہے جو اسرائیل کے عوام نے منتخب کی ہے اور جو کہ فلسطین کے عوام میں جبر تسلط کی انتہا کررہی ہے دوسری جانب بھارت کے عوام نے نریندر مودی کو بھاری اکثریت سے منتخب کیا اس نریندر مودی نے پورے ہندوستان میں بالعموم اور کشمیر میں بالخصوص مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہے یعنی باقی دنیا کے عوام نے ایسے لوگوں کو اختیارات دینا شروع کر دیا جو اپنی سخت پالیسیوں کی وجہ سے معروف ہیں اس ہی طرح مغربی ملکوں میں آہستہ آہستہ ایسے افراد برسر اقتدار آتے جارہے ہیں جو کہ مسلمانوں یا باہر سے نقل مکانی کرنے والوں کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار کرنا چاہتے ہیں یہ سلسلہ جو آہستہ آہستہ آگے کی جانب بڑھ رہا ہے اور یہ ہے اس وقت بہت تیزی سے اپنے مراحل طے کرنے لگے گا جب امریکہ کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیابی حاصل ہو جائے گی۔ اگر وہ کامیاب ہو گئے تو دنیا کے دوسرے ممالک میں ان ہی جیسے لوگ اقتدار میں تیزی سے آتے چلے جائیں گے۔
اس وقت تمام دنیا کی نظریں امریکہ کے انتخابات پر لگی ہوئی ہیں جہاں پر ڈونلڈ ٹرمپ بہت تیزی سے عوام میں مقبول ہو رہے ہیں، عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے ان کو امریکہ کی بہت سی ریاستوں میں واضح اکثریت سے کامیاب کروا کر ان کی پالیسیوں کے مخالفین کو شکست دے کر ان کی کامیابیوں کے راستے سے ہٹا دیا۔ ٹرمپ نے امریکہ کی تمام ریاستوں سے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدارت کے لئے نامزدگی حاصل کرکے دنیا کے لوگوں کے لئے ایک واضح پیغام پہنچایا کہ دنیا کی سب سے بڑی قوت کے کیا ارادے ہیں ان کے طرز عمل کے اثرات ان سیاسی افراد پر بھی پڑھ رہے ہیں جو کہ نسبتاً متوازن فکر و سوچ رکھتے ہیں عوام کے ایک بڑے حصے کی رجحانات کے اثرات ان کے انداز فکر پر بھی لازماً پڑ رہے ہیں۔
یوں وہ بھی اپنی پالیسیوں میں ان رجحانات کو سمونے کے لئے مجبور ہو رہے ہیں۔ اس طرح دنیا بھر کے متوازن اندازے فکر رکھنے والے طبقات پر ایک طرح کا دباﺅ بڑھتا جارہا ہے اس طرح کے رجحانات کے تدارک کے لئے ان قوتوں اور طبقوں کو اپنا رول اس طرح سے ادا کرنا چاہئے کہ دوسرے طبقوں میں ان کے لئے زیادہ پذیرائی حاصل ہو سکے۔ اس کے لئے سب سے پہلے اپنے اندر سے اس انداز فکر رکھنے والے عناصر کو علیحدہ کرنا پڑے گا جن کی وجہ سے تمام مثبت انداز فکر رکھنے والے متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ دنیا سب لوگوں کو انتہا پسند ان ہی جیسا سمجھ رہی ہے جن کی وجہ سے ان کے اندر بھی ایک طرح سے منفی رجحانات جنم لے رہے ہیں۔ باہر سے آنے والے غیر مقامی افراد کو اپنے آپ کو اس طرز فکر رکھنے والے گروہوں سے علیحدہ ثابت کرنا پڑے گا جن کے طرز عمل کی وجہ سے تمام دنیا میں غلط تاثر پیدا ہو رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے دنیا بھر میں جو عناصر اپنے منفی حربوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح ہم سے بن جاتا ہے ان کے طریقوں کی وجہ سے دنیا بھر کے عوام ہمیں بھی شک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اندرون خانہ کسی نہ کسی طرح ان عناصر کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ اب ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ان انتہا پسند عناصر کے خلاف اپنے اندر ایسے انتظامات کرنے ہوں گے کہ ان کی وجہ سے ہمارے علاقے میں کسی قسم کے تخریب کار پنپ نہ سکیں۔ اس طرح ہم بجائے ان لوگوں کو انتخابات میں شکست سے دوچار کرکے خاموش ہو کر بیٹھ جائیں۔ ہمیں ہر وقت تیار رہنا پڑے گا تاکہ یہ عناصر ہمارے نام کو بدنام نہ کرسکیں اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہاں کی آبادی سے اپنے تعلقات کو بہتر سے بہتر بنا کر ان کے ساتھ اخوت اور بھائی چارے کو بڑھایا جائے۔ ساتھ ان عناصر پر بھی نظر رکھی جائے جو ان تعلقات میں رخنہ پیدا کرنے کا باعث ہوں۔ اس لئے ہم پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے دوسرے ہم وطنوں کے ساتھ ہم اس اپنے وطن کی حفاظت کریں دوسرے ان لوگوں کے خلاف بھی ہمیں تیار رہنا چاہئے جو کہ ہمارے نام کو بدنام کرکے اپنے وطن کے خلاف سازشیں کرنے کے ارادے رکھتے ہیں ان عناصر کی ناپاک منصوبوں کے کامیاب ہونے کی سزا صرف ان ہی کو نہیں ملے گی بلکہ اس کے اثرات ہمارے اوپر بلاواسطہ پڑیں گے اس لئے ہمیں اپنے اپنے علاقوں میں ڈونلڈ ٹرمپ، نریندر مودی، نیتن یاہو، اسٹیفن ہارپر جیسے لوگوں کو کامیاب نہ ہونے دیں اس کا طریقہ یہی ہے کہ ہمیں اپنے طرزعمل اس طرح بنانا ہو گا کہ وہ سب ہمارے لئے اٹھ کھڑے ہوں جیسے کے کینیڈا کے پچھلے انتخابات میں اسٹیفن ہارپر کو ہرا کر جسٹن ٹروڈو کو کامیاب بنایا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں