عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 405

ہندوستان بدلاﺅ کی راہ پر۔۔۔

آج اگر پاکستان اور بھارت کی اندرونی سیاست اور ایک دوسرے ملک کے ساتھ جاری محاذ آرائی پر بات کی جائے تو پاکستان کے بدترین مخالف اور بھارت کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ 71 برسوں کے بعد پاکستان پہلی بار اندرون ملک اور بیرون ملک اتنا ہی سمجھ داری اور بردباری سے کام لے رہا ہے وہ سیاست اور ڈپلومیسی میں بہت ہی اچھے کارڈ کھیل رہا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں بھارت ”ڈرٹی گیم“ کھیل رہا ہے۔ بھارت اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بہت جلد ہی بے نقاب ہو گیا ہے اور ایسے لگ رہا ہے کہ 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی موثر ترین پلیٹ فارم سے پوری دنیا نے بھارت کے بارے میں جو کچھ سنا نریندر مودی اور اس کی حکومت اس کو عملی جامہ پہنچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کررہی ہے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں جس کی تصدیق خود بھارت سے اٹھنے والی آوازوں سے ہو رہی ہے۔
بھارتی سیاستدان ہوں یا دانشور اور تجزیہ نگار ہو یا فن کار ہو سب کے سب ہی نریندر مودی کی ان پالیسیوں کی وجہ سے سڑکوں پر آچکے ہیں اور بھارت میں یہ تاثر بڑھتا جارہا ہے کہ اس سیکولر ملک میں اب غیر ہندوﺅں کے رہنے کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں، پارسیوں اور خود یہودیوں کے لئے پورے ہندوستان کو ”نوگو ایریا“ بنایا جارہا ہے۔ پورے ہندوستان کے حالات تیزی کے ساتھ 1857ءوالے بنتے جارہے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ وہ تحریک گوروں کے خلاف چل رہی تھی اور آزادی کی اس تحریک کو جنگ غدر کا نام دیا گیا تھا جب کہ موجودہ تحریک ہندوستان پر قابض کالے گورے انتہا پسند ہندوﺅں کے خلاف خود پڑھے لکھے محب الوطن ہندوﺅں اور مسلمان اور سکھوں نے شروع کر رکھی ہے جو گاندھی کے اس ہندوستان کے بٹوارے کے خلاف ہیں اور وہ نریندر مودی اور اس کی حکومت کے عزائم کو ناکام بنانے کے لئے کام کاج چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ خود مظاہرین کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے ہوتے ہوئے بھارت کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ نریندر مودی انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور آر ایس ایس بھارت کو ہندو اسٹیٹ بنانے کے لئے اس کے بٹوارے کی کوشش کررہی ہے اسی مقصد کے لئے ترمیمی شہریت بل پاس کروایا گیا جس کا مقصد بھارت میں رہنے والے مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور دوسرے اقلیتوں کو واضح طور پر یہ پیغام دینا ہے کہ وہ یا تو ہندوﺅں کے محکوم بن کر دوسرے درجے کے شہری بننے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں بصورت دیگر وہ بھارت کو چھوڑ کر دوسرے ملک چلے جائیں اس کے ساتھ پولیس اور آر ایس ایس کے غنڈوں کے ذریعے اقلیتوں کے گھروں میں حملے کروا کے لوٹ مار کرکے انہیں ہراساں بھی کیا جارہا ہے جس روز سے ترمیمی شہریت بل آیا ہے اس کے بعد سے پورے بھارت میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں جس میں ابھی تک درجنوں افراد پولیس فائرنگ سے ہلاک اور زخمی ہوئے، املاک کو نذر آتش کیا گیا مگر نریندر مودی کی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی جس سے یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ حکومت باضابطہ منصوبہ بندی کے ساتھ یہ گھناﺅنا کھیل کھیلتے ہوئے نہرو کے سیکولر بھارت کو ”ہندوتوا“ یعنی ہندو اسٹیٹ بنا رہی ہے اس خونی کھیل میں ”را“ اور انڈیا کی جوڈیشل سسٹم بھی حکومت کے سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں۔ حکومتی مظالم کے شکار اقلیتوں کی کہیں سنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ انڈین میڈیا کو ایڈوائزری نوٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جارہا ہے، خود انڈین دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت عوامی توجہ کو ادھر ادھر کرنے کے لئے پلوامہ سانحہ کی طرح سے کوئی اور ایڈونچر کرنے کی سازش کررہی ہے تاکہ اس کے ملک میں جنگی ماحول پیدا کرکے ملک میں پھیلی جانے والی اس شورش کو دبایا جا سکے۔ یہ ایڈوانچر کب ہوگا، اور کیسے ہوگا، اوراس کے کیا اثرات بھارت کی اندرونی سیاست اور پاک بھارت تعلقات پر پڑیں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتلائے گا۔ فی الحال نریندر مودی کی احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مودی بمثل ہٹلر اور ان کی پارٹی آر ایس ایس نازی ازم کے مشہور ہو گئی ہے۔
بھارت کے مکروہ چہرے سے سیکولر اور امن کا پردہ پوری طرح سے سرک چکا ہے اور اب وہ ایک دہشت گرد ملک کی حیثیت سے معروف ہوتا جارہا ہے۔ دنیا 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے کئے جانے والے طویل ترین خطاب کو اب سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ نریندر مودی اور ان کی حکومت کے ان اقدامات نے عمران خان کی عالمی سیاست میں ان کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیا ہے اور وہ اب ایک کرکٹر سے ایک دور اندیش مدبر کے طور پر عالمی سیاست میں ابھر رہے ہیں۔ اس لئے کہ عمران خان کے لگائے جانے والے ایک ایک الزام کی خود نریندر مودی اور ان کی حکومت تائید کررہی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت ترمیمی شہریت بل ہے اسی وجہ سے پاکستان کے بدترین مخالف بھی پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے اس وقت پاکستان دنیا میں امن کے سفیر ہونے کی حیثیت سے معروف ہوتا جارہا ہے جب کہ پیشن گوئی کرنے والوں نے نئے سال 2020ءکو بھارت کے بٹوارے کا سال کہہ دیا ہے ان کی پیشن گوئی کہاں تک درست ثابت ہوتی ہے اس کی تصدیق کے لئے ابھی 365 روز باقی ہیں مگر آگ کا اندازہ تو اٹھنے والے دھویں ہی سے لگ جاتا ہے کہ آگ کہیں نہ کہیں ضرور لگی ہے جو نظروں سے اوجھل ہے۔
عمران خان اور ان کی حکومت اور قارئین کو سال نو مبارک ہو اور ہماری دعا ہے کہ بھارتی اقلیتوں پر ہونے والے مظالم رک جائیں اور انہیں اپنے اباﺅ اجداد کے ملک سے ہجرت کرنے کی مشکل کا سامنا نہ کرن اپڑے اور نہ ہی کسی کو یہ گنگناے کا موقع ملے کہ
دیکھ تیرے سنسار کی حالت کیا ہو گئی بھگوان
کتنا بدل گیا ہے انسان، کتنا بدل گیا انسان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں