بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 287

یہ کیسا گورکھ دھندا ہے؟

پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں کی ہر بات نرالی ہے یعنی کراچی میں بارش کا پانی لوگوں کے سروں سے گزر گیا مگر وہاں کے نمائندے، گورنر سندھ، وزیر اعظم اور صدر پاکستان جنہوں نے کراچی کے نمائندے کی حیثیت سے وفاقی حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ صدر، وزیر اعظم، گورنر اور وزیر بن گئے مگر آفت آئی تو ایسے غائب ہوئے کے جیسے ”گدھے کے سر سے سینگ“۔ چلیں یہ حقیقت تو آشکار ہو گئی کہ کراچی کے اصل بلکہ پاکستان کے اصل حکمران کون ہیں اگر اس مشکل گھڑی میں کراچی کا دورہ کسی نے کیا تو وہ ہمارے آرمی چیف محترم باجوہ نے کیا اور اس بات پر مہر ثبت کردی کہ کراچی سے جیتنے والے تمام نمائندے بے اختیار ہیں اور اصل اختیارات کے مالک وہ یعنی آرمی چیف اور ان کے کور کمانڈرز ہیں جو ملک کے لئے اپنا لہو اس لئے بہاتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان انہی کی ملکیت ہے اور حکومتوں، اسمبلیوں اور عدالتوں میں بیٹھے لوگ ”بلڈی سویلین“ ہیں۔
بہت شور مچا، کراچی کے وسائل پر شب خون مارنے کا بہت واویلا مچا، نوکریاں صرف اور صرف سندھیوں میں تقسیم کرنے کا، صوبائی خودمختاری کا شور مچا کر اٹھارویں ترمیم کے ذریعہ نہ صرف سندھ بلکہ کراچی جو کہ سندھ کا دارالخلافہ ہے کا کنٹرول حاصل کرلیا گیا پھر تمام اداروں کو اپنی تحویل میں لے کر وہ بھیانک کھیل کھیلا گیا کہ جس نے کراچی جو پاکستان کا معاشی حب تھا کا تیل نکال کر رکھ دیا۔ نہ صرف سندھ گورنمنٹ بلکہ وفاق بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رہا۔ گزشتہ چند ہفتوں سے ایک میڈیا کمپیئن کے ذریعہ یہ شوشا چھوڑا گیا کہ کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرکے سندھ میں گورنر راج کا نفاذ کیا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں سندھ کی حکومت دباﺅ میں آگئی یوں غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ہمارے اصل حکمرانوں نے سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی سے سازباز کرکے سندھ کی ہزاروں ایکڑ زمین ہتھیا لی۔ یہ وہ زمین تھی جس کا تقاضہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کافی عرصہ سے کررہی تھی مگر سندھ حکومت حیلہ بہانوں سے اس معاملہ کو ٹال رہی تھی مگر سندھ میں گورنر راج کا شوشا چھوڑ کر سندھیوں سے معاملات طے کرلئے گئے اور یوں ملک کے اصل حکمرانوں کو سندھ کی ہزاروں ایکڑ زمین مل گئی اور سندھیوں کو غیر معینہ مدت کے لئے کوٹہ سسٹم دوبارہ نافذ کرکے خوش کردیا گیا۔
بارش کی صورت میں کراچی پر قدرتی آفت آئی تو سب غائب ہو گئے۔ معاملات کو سنگین حد تک خراب کرنے کے بعد آرمی چیف جناب قمر جاوید باجوہ کراچی پہنچے ہیں اور سندھ حکومت کے ساتھ مل کر ریلیف پیکیج تیار کیا جارہا ہے۔ یعنی کراچی کو لوٹنے والے ڈاکو سرجوڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور یہ طے کررہے ہیں کہ نئے پلان کے تحت کس طرح بقیہ کراچی کو اپنی میراث میں تبدیل کیا جائے۔ موجودہ صورتحال سے یہ تو واضح ہو گیا کہ ملک کے دیگر صوبوں کے لوگوں کو کراچی کے عوام سے کوئی لگاﺅ نہیں۔ کسی کا ہمدردانہ بیان نظر سے نہیں گزرا بلکہ کراچی کے حالات پر تمسخر اڑایا گیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کو کراچی کی زمین چاہئے مگر اردو بولنے والوں کا وجود ناقابل برداشت ہے۔
کراچی کے غریب اور پسماندہ علاقوں کو چھوڑیے یہاں تو کلفٹن اور ڈیفنس کے رہنے والے آج سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں وہ جنہوں نے کروڑوں روپیہ دے کر اپنے ہی شہر کی زمین اسٹیبلشمنٹ سے خریدی۔ جن سے مراعات دینے کی مد میں لاکھوں روپیہ وصول کئے جاتے رہے۔ جنہیں پینے کا پانی بھی مفت نہیں مل سکا، تمام ادائیگیوں کے باوجود بے یارومددگار روڈ پر کھڑے ہیں۔ اسی روڈ پر جہاں گردن تک پانی ہے۔ جن کے گھروں میں غلیظ پانی بھرا ہوا ہے مگر کون پوچھے اسٹیبلشمنٹ سے۔ کس میں ہمت ہے کہ سوال کرے کہ کہاں ہیں ہمارے وہ ادا کردہ پیسے جو ہم نے سڑکوں کی مرمت، گٹر کی صفائی اور دیگر سروسز کے لئے برسوں دیئے۔ کس بلڈی سویلین کی مجال ہے کہ انگلی اٹھا سکے۔ آرمی چیف کراچی پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے کراچی کا فضائی جائزہ بھی لے لیا ہے۔ سندھ گورنمنٹ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے مگر یاد رہے کہ سندھ کی حکومت اور پیپلزپارٹی کی نیت سب کے سامنے ہے۔ نہ ان کا ووٹ کراچی میں ہے، نہ ان کا کوئی اسٹیک۔ کراچی صرف پیسہ کمانے کی مشین ہے اور سب مل کر کراچی کا دودھ پی رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں اس بار آرمی چیف کس نئے پلان کے تحت سندھیوں سے سازباز کرتے ہیں اور کیونکر سندھیوں اور مہاجروں کو ایک ٹیبل پر لاتے ہیں کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ مہاجر کو مہاجر کہلوانے والے بھی ہمارے یہی خاکی وردی والے ہیں۔ الطاف حسین جیسے لوگوں کو کراچی پر مسلط کرنے والے بھی یہی ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ کہیں یہ کراچی کو ایسی سطح پر نہ لے جائیں جہاں کراچی کا بچہ بچہ روڈ پر آجائے اور پھر منافرت، تعصب اور لسانیت کی بنیادوں پر وہ قتل عام شروع ہو جو سب کچھ بھلا دے اور ملک کے اصل حکمران اپنا کھیل ایک بار پھر آئندہ چند برسوں کے لئے کھیلنے کے قابل ہو جائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں