جیسا کہ گزشتہ تحریر میں آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ اس معاہدے سے علاقہ کی سیاست میں دور رس نتائج برآمد ہوں گے اس کا نتیجہ سامنے آگیا امریکی صدر نے اس بات کا اعلان کردیا کہ اسرائیل کو متحدہ عرب امارات کے تسلیم کرلیا ہے اور عنقریب دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہو جائیں گے جس کے بعد اسرائیل متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسٹرٹیجک معاملات میں شامل ہو کر اپنا کردار ادا کرے گا اور یہ اسٹریٹیجک معاملات فوجی معاونت، اسلحہ کی فراہمی، فوجوں کی تربیت اور علاقہ میں فوجی اڈوں کا قیام ہوتا ہے جس کے بعد سعودی عرب جو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر چکا ہے اس میں شامل ہو جائے گا اور اس طرح یہ عرب ممالک جو بقول ٹرمپ کے دیگر عرب ممالک بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کریں گے جب کہ مصر اور اردن اس سے قبل یہ فریضہ انجام دے چکے ہیں اور سب کچھ صدر ٹرمپ کے یہودی داماد کاوہ منصوبہ ہے جو اس نے سعودی حکمرانوں کے ساتھ مل کر طے کیا تھا۔ اب سعودی عرب جو کہ ان دنوں پاکستان کو اپنی شرائط ماننے کے لئے بلیک یل کررہا ہے کو ان پاکستانیوں فوجیوں کی ضرورت نہیں رہے گی جو سعودی عرب میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور سعودی دفاعی منصوبوں کو کامیاب بنا رہے ہیں۔ اس طرح وہ صحیح معنوں میں اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران اور پاکستان کے خلاف ایک فوجی اتحاد قائم کرے گا جس میں متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک شامل ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ قطر کو بھی سبق سکھانے کا اپنا پروگرام روبہ عمل لائے گا۔
ایران جو کئی دہائیوں سے امریکہ کی طرف سے پابندیوں کا شکار ہے اور خصوصاً ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد جو ایٹمی معاہدے پر وعدہ خلافی کرکے مکر جانے کے بعد مزید سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں جس پر یورپی ممالک باوجود امریکہ کے دباﺅ اس پر راضی نہیں تھے کہ ایران کو دیوار سے لگایا جائے۔ اس طرح ایران کو اقتصادی طور پر اپاہج بنایا گیا اس کی تیل کی فروخت پر پابندیاں لگائی گئیں، ترقی کے منصوبے روک دیئے گئے، زرعی اور صنعتی شعبوں کو تباہ کردیا گیا، اس کے مواصلاتی منصوبوں کو ختم کردیا گیا، اس کی فارما سیوٹیکل انڈسٹری کو مفلوج کرکے عوام کو سخت مشکلات میں ڈال دیا گیا حتیٰ کہ اس کی غذائی ضروریات کو بھی پابندی کے ذریعہ روک دیا گیا ان حالات میں جب کہ بین الاقوامی قوتوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ایران کو ہر طرح سے مفلوج کردیں تو ایران کو اپنی بقاءکے لئے اس کے علاوہ اور کیا راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ چین کی طرف دیکھے جو اس کی طرح ہی امریکہ کے اس اجڈ صدر کے ہدف پر ہے جو کبھی اس پر الزام لگاتا ہے کہ کرونا کی وباءاس کے یہاں سے آئی ہے، کبھی وہ ساری دنیا کو مجبور کرتا کہ 5G کو استعمال نہ کریں، کبھی چین پر ناجائز ڈیوٹی لگا کر تجارت کو محدود کرنا چاہتا ہے اور اپنے صنعت کاروں کو مجبور کرتا ہے کہ چین سے سارے روابط توڑ لیں اور اپنے منصوبے بھارت منتقل کردیں اس پس منظر میں ایران ہی کیا کوئی بھی ملک اپنی بقاءکے لئے یہ حق رکھتا ہے کہ وہ ملک اور عوام کی فلاح کے لئے کسی بھی ملک سے معاہدے کرسکیں اور ایران نے اس سلسلے میں چین کا انتخاب کیا جو بغیر کسی سیاسی شرط کے اور ناجائز مطالبات کرانے کے بجائے اپنی ترقی اور صلاحیتوں کو ایران کے ساتھ شیئر کرے اور اس طرح دونوں ممالک بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت متحد ہو جائیں اور یقیناً ان حالات می کہ ایران کو اپنی بقاءکی جنگ لڑنی ہے اسرائیل اور اس کے عرب حمایتی ختم کرنے کے درپے ہیں۔
چین نے ایران کے کئی دہائیوں سے کمیونیکیشن، ٹرانسپورٹیشن، مواصلات، ریلوے، ایئرپورٹ، بندرگاہوں کے منصوبوں کے ساتھ اپنی سب سے بڑی دولت تیل کے عظیم منصوبوں کو مکمل کرنے کے لئے رضا مندی کا اظہار کیا ہے جس کےبعد ایران تیل کی صنعت کو جدید ترین پیمانے پر استوار کرکے خوشحالی کے نئے دور میں داخل ہوگا اور اس کی تیل کی فروخت جو پابندیاں امریکہ نے عائد کردیں ہیں اس سے چھٹکارا پائے گا جب کہ چین 25 سال تک کم نرخ پر ایران کا تیل حاصل کرے گا جو اس وقت دنیا میں تیل استعمال کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ چین ایران کو جدید ترین بنانے کے لئے مغربی ممالک اور جنوبی کوریا کی طرز پر منصوبے مکمل کرے گا۔ چین نے ایران کو ایک ایسی مثالی ریاست اور ملک بنانے کا تہہ کرلیا ہے جو ساری دنیا کے لئے ایک رول ماڈل ہو اور اس کو دیکھ کر دیگر ممالک بھی چین کی طرف ہاتھ بڑھائیں اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوں۔ دوسری طرف چین خود بھی اپنی تیل اور گیس کی ضروریات ایران سے پوری کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ مستقبل میں انہیں بے روک ٹوک استعمال کرسکے اور اس کا انحصار کسی ایک ہی ملک پر نہ ہو اور اس کے لئے ہی وہ تیل اور گیس کے منصوبوں پر 400 ملین ڈالر کا زیادہ حصہ استعمال کرے گا۔ اس معاہدے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایران میں چین اور روس کی فوجی موجودگی جغرافیائی اور سیاسی معاہدے پرشین گلف اور علاقے کو محفوظ بنا دیں گے تاکہ تیل کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکے اور کسی طالع آزما کو ایران پر حملہ کرنے کی ہمت نہ ہو کیونکہ چین اور روس فوجی طاقت انہیں ایسے کرنے کے لئے باز رکھ سکتی ہیں جب کہ ایران کو چین کی ملکی فوجی حمایت، اسلحہ، فضائیہ، بحری اور فنی معاونت حاصل ہو گی جب کہ روس کا S-400 میزائلز اس کی سلامتی کے لئے دستیاب ہوں گے۔ اس کے ساتھ چین اور روس کو عربین گلف اور پورے مشرق وسطیٰ پر بالادستی حاصل ہو جائے گی۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین کو ایران کے ذریعہ براہ راست پاکستان مشرق تک رسائی حاصل ہو جائے گی اور مغربی امریکہ کے ساحلی علاقوں تک پہنچ جو جائے گی کیونکہ شاہراہ ریشم مستقبل میں ایک اہم تجارتی شاہراہ بن جائے گی جب کہ ایران جو کہ 15 ممالک کے ساتھ اپنی سرحدیں رکھتا ہے چین کو ان تک بھی رسائی ہو جائے گی جو خشکی اور بحری ذرائع مواصلات کے ذریعہ باہم مربوط ہو جائیں گے۔ ان میں افغانستان، ارمینیا، آذربائیجان، عراق، پاکستان، ترکی اور ترکمانستان شامل ہیں جب کہ روس اور قازقستان ان کے ساتھ بحیرہ کیسپین کے ذریعہ جڑ جائے گا ادھر عرب گلف کے ذریعہ سعودی عرب، قطر، امارات، بحرین، کویت اور سلطنت اومان سے بھی روابط ہو سکتے ہیں۔ اس سے قبل اس علاقہ میں گزشتہ دسمبر میں چین، روس اور ایران کی جنگی مشقوں نے ساری دنیا کو حیران کردیا تھا اب سب کے سامنے پورا نقشہ آگیا ہے کہ آگے کیا ہونے جارہا ہے۔ (ختم شد)
438