۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 357

۔۔۔ صرف حقوق

معاشرے حکمرانوں، قوانین اور آئینوں سے نہیں بلکہ تعلیم اور انسانی شعور سے تکمیل پاتا ہے جہاں لوگوں کو اگر اپنے حقوق کا علم ہو تو فرائض کا ادراک بھی ہونا لازمی ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں فرائض تو بہت دور کی بات ہے لوگوں کو اپنے حقق کا بھی علم نہیں ہے جہاں تعلیم یافتہ افراد کا تناسب خوفناک حد تک کم ہو اور تعلیم بھی شعور اور حصول علم کے بجائے محض سرکاری نوکریوں کے حصول کے لئے حاصل کی جاتی ہو اور تعلیم بھی وہ جو کہ محض کاغذ کے ایک پرزے کے حصول کے لئے ہو جسے دکھا کر پیسہ کمانے کے ذرائع حاصل کرنا ہو اور تعلیم بھی وہ جو کہ کوٹہ سسٹم اور اجتماعی طور پر چیٹنگ کے ذریعہ حاصل کی ہو وہاں علم کہاں سے آئے گا، شعور کیوں کر حاصل ہو گا، اس کے ساتھ ساتھ جسے کہ اس بات کا علم ہی نہ ہو کہ معاشرے کی طرف سے اس پر کیا ذمہ داریاں ہیں کس طرح وہ اپنے حقوق کے لئے ان ذمہ داریوں کو فرائض کے ذریعہ پورا کئے بغیر تعداد نہیں قرار دے سکتا، عوام یہ تو سمجھتے ہیں کہ حکومت کی ذمہ داری مادی ضروریات کی فراہمی ہے جس میں صحت، تعلیم، پانی صاف ستھرا اور انصاف کا حصول بھی شامل ہے مگر اسے اس بات کا ادراک نہیں کہ ان تمام چیزوں کی فراہمی کے لئے حکومت کو عوام سے ٹیکس کی صورت میں جو چاہئے جس کے ذریعہ ان بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنا سکتے ہیں عوام ان تمام چیزوں کے حصول کے لئے تو مطالبات کرتی ہے مگر ٹیکس دینے کو ایک ظلم سمجھتی ہے اور اسے بچانے کے لئے نت نئے حل کرتی ہے جس میں آمدنی کے ذرائع کو چھپانا، بڑی بڑی کمپنی پر اکاﺅنٹنٹ رکھ کر جعلی کھاتے بنانا، آمدنی سے زائد اخراجات دکھا کر ٹیکس ادا نہ کرنا غرض کہ ہر وہ کام کرنا جس سے حکومت کو ٹیکس نہ دینا پڑے جائز ذرائع کے بجائے اسمگلنگ کے ذریعہ بغیر ڈیوٹی کے مال منگوانا اور پھر اس کی آمدنی بھی پوشیدہ رکھنا یا یہ کہ منی لانڈرنگ کرکے ملکی سرمایہ کو دوسرے ممالک میں پوشیدہ رکھنا بھی شامل ہے اور اس ”کارخیز“ میں ہر فرد شامل ہے اور اس پر شرمندہ بھی نہیں ہیں جب کہ دوسرے ممالک میں ایک عام شہری بھی اس کا شعور رکھتا ہے کہ اس کے فرائض میں حکومت کو ٹیکس دینا بھی شامل ہے تاکہ کاروبار سلطنت میں اس کی بھی شرکت ہو جائے اس سلسلے میں ایک ذاتی واقعہ پیش خدمت ہے۔
میں ہیوسٹن میں ایک گیس اسٹیشن پر کام کرتا تھا ایک مرتبہ میرے ساتھ ایک اور صاحب جو پاکستانی تھے شفٹ میں کام کرتے تھے، میں اندر اسٹور میں تھا کہ مجھے باہر سے زور زور سے باتیں کرنے کی آواز آئی، میں نے باہر دیکھا کہ ایک سیاہ فام خاتون میرے ساتھی کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہے، میں نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ اس آدمی نے کمپیوٹر پر میری ادائیگی پر ”No Tax“ کی key کیوں دبائی؟ میں نے اس خاتون سے معافی مانگی اور کہا کہ یہ بندہ انڈر ٹریننگ ہے لہذا اس سے غلطی ہو گئی مگر ان خاتون نے کہا کہ میں نے کئی دفعہ تم لوگوں ک ویہ کرتے دیکھا ہے، لہذا بڑی مشکل سے معاملہ رفع دفع ہوا اور اصل معاملہ یہ ہے کہ ہمارے مالکان کی ہدایت تھی کہ موقعہ ملتے ہی ”نو ٹیکس“ کی ”key“ دبا دو کیوں کہ وہ بھی ”تم لوگوں“ میں سے تھے یعنی آپ سمجھ گئے کہ ”تم لوگوں“ کی گھٹی میں چوری کی عادت پڑی ہوتی ہے لہذا ہر ہر مرحلے پر ہم اس پر عمل پیرا ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس چوری کی عادت اتنی راسخ ہو چکی ہے کہ ”خدائی ٹیکس“ یعنی زکوٰة کے سلسلے میں یہ بدبخت قوم خدا سے بھی نہیں ڈرتا اور اس میں بھی مکاری کرتا ہے۔ حکومت اہل تشیع کو ان کے فقہہ کے مطابق زکوٰة حکومت دینے کے بجائے انہیں ادا کرنے کی سہولت دی لہذا انہیں بینکوں کو ایک حلف نامہ دینے کا پابند کی اہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ فقہہ جعفریہ سے تعلق رکھتے ہیں لہذا ان کے اکاﺅنٹس میں زکوٰة نہ کاٹی جائے اس سہولت کا فائدہ اٹھانے کے لئے دیگر افراد نے بھی جعلی حلف نامے جمع کراکر زکوٰة کی کٹوتی سے بچ نکلنے کی سہولت حاصل کرلی ہے جہاں لوگوں کی گراوٹ اس حد تک پہنچ چکی ہو وہاں یہ قومی مزاج بن گئی۔
عمران خان فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ایک قابل ترین شخص شبر زیدی کو اس کا چیئرمین مقرر کیا تاکہ وہ ٹیکس وصولی اور دیگر اصلاحات کرکے ملکی خزانے کو ان عادی ٹیکس چوروں سے بچائیں جنہوں نے کبھی ٹیکس کی ادائیگیاں نہیں کی ہیں۔ شبر زیدی نے بڑے جوش و خروش اور ولولے کے ساتھ اس عہدہ پر آئے مگر 70 سال سے زیادہ عرصے تک اس بدعنوان معاشرے کے مگرمچھوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے اور اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیا انہوں نے حال ہی میں پورے نظام کے بارے میں جو کہ اہے وہ قوم کا ایک المیہ ہے اور چشم کشا حقیقت ہے کہ جب ہم خود کو بطور قوم خود نہ بدلنا چاہیں گے تو فوج آئے یا عمران، صدارتی نظام ہو یا شریعت کوئی مائی کا لال اس نظام کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا جھوٹے، دھوکہ، ملک سے غداری اور خود غرضی اس قدر طاری ہو چکی ہے اس کا علاج کسی کے پاس نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے سات انڈسٹر پر ٹریک اور ٹربس لگانے کی کوشش کی جسے سیمنٹ، سگریٹ وغیرہ لیکن ہم ناکام ہو گئے، سگریٹ پر لگایا تو عدالت سے اسٹے آرڈر دیدیا گیا، دوسری کوشش پیکنگ میں بزنس اکاﺅنٹس چار کروڑ ہیں لیکن ٹیکس میں ایک کروڑ دکھائے گئی ہیں جس پر این ٹی این لگنا چاہئے۔ بجلی کے ساڑھے تین لاکھ صنعتی اور تجارتی کنکشن ہیں لیکن سیلز ٹیکس میں 40 ہزار رجسٹرڈ ہیں اس سلسلے میں جب ڈیٹا طلب کیا گیا تو لاہور چیمبر آف کامرنس نے پریشر ڈال کر رکوا دیا۔ زراعت میں آڑھتی اتنا پاور فل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے زرعی اجناس کی قیمت کم اور زیادہ کرتا ہے، اس میں کرپشن کا سرمایہ لگا ہوا ہے اور جب اس سلسلے میں کوشش کی تو آڑھتی مافیا نے صاف کہہ دیا یہ آپ کے بس کی بات نہیں ہے۔ گوشت اور پولٹری کی اتنی وسیع تجارت ہے لیکن حکومت کو اس مد میں ٹیکس کا ایک پیسہ نہیں ملتا کیونکہ با اثر سیاستدان اس کے کرتا دھرتا ہیں۔ پاکستان میں سلک کی ایک بھی مل نہیں چل رہی ہے نہ پاکستان سلک امپورٹ کررہا ہے تو سلک کا کپڑا کہاں سے آرہا ہے؟ یہ سب اسمگل ہو کر آرہا ہے یہ سب کو علم ہے کراچی چیمبر کے صدر سراج قاسم تیلی سے کہا تھا کہ میں ٹیکس سے متعلق ساری مشکلات ختم کر دوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ کراچی کے تاجر اسمگل شدہ اشیاءنہ فروخت کریں لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ یہ ہیں ہمارے ”محب وطن“ تاجروں کے رویے۔ اب دنیا کی کوئی طاقت اس ملک کی اقتصادی حالت ٹھیک نہیں کر سکتی کیونکہ ساری قوم اس مرض میں مبتلا ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں