عمران خان توجہ فرمائیے! 270

آئین پاکستان یا موم کی ناک!

1973ءمیں تخلیق پانے والے متفقہ آئین کو نافذ ہوئے نصف صدی ہونے کو ہے۔ یہ آئین اس وقت معرض ووجد میں آیا تھا جب گھروں میں لالٹین جلا کرتی تھیں۔ جب ریڈیو اور بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تھا جب ایئر کنڈیشنر، جدید رہائش گاہیں، سولر سسٹم، کمپیوٹر، موبائل، انٹرنیٹ، ڈیجیٹل ڈیوائسز اور سوشل میڈیا نہیں تھا۔ لوگ زیادہ تر اخبارات پڑھ کر اور ریڈیو پر خبریں سن کر گزارہ کرتے تھے۔ ساﺅتھ ایشیا میں جدید دور کا آغاز نہیں ہوا تھا۔
اس آئین کے تقریباً سبھی تخلیق کار دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں آج تک یہی آئین نافذ العمل ہے۔ اس میں کئی ترامیم بھی کی گئیں مگر وہ ایسی ترامیم تھیں جن سے ترامیم کرنے والی حکومتوں کو فائدہ پہنچا۔ ان میں ایک بڑی ترمیم اٹھارویں ترمیم کہلاتی ہے جس میں زیادہ تر اختیارات مرکز سے لے کر صوبوں کو منتقل کر دیئے گئے۔ بنیادی طور پر اس کا مقصد اختیارات اور وسائل کا نچلی سطح تک پہنچانا تھا لیکن اس ترمیم سے صوبوں کے پاس بے پناہ اختیارات آگئے اور پھر ان اختیارات کا ناجائز استعمال شروع ہوگیا۔ ان میں سب سے اہم اختیار صوبوں کو ملنے والے بجٹ سے متعلق ہے اس ترمیم کی رو سے صوبے آڈٹ کروانے کے پابند ہیں مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے بجٹ کا بہت بڑا حصہ کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ ٹیکس اکھٹا کرنے کی ذمہ داری وفاق کی ہے اور ٹیکس سے وصول ہونے والی رقم صوبوں اور قرض کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتی ہے اور وفاق پہلے دن سے ہی خالی جیب ہوتا ہے۔
اٹھارویں ترمیم جو کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی ملی بھگت سے بلڈوز کرکے منظور کی گئی تھی نے نواز شریف کو تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کا موقع فراہم کیا۔ اس سے پہلے آئین پاکستان کی رو سے کوئی بھی شخص دو مرتبہ سے زیادہ وزیر اعظم نہیں بن سکتا تھا۔ اسی ملی بھگت کے نتیجے میں صوبوں کو با اختیار کیا گیا اور یہ اس وجہ سے تھا کہ دونوں مذکورہ پارٹیوں نے اقتدار میں آنے کی بندربانٹ لگا رکھی تھی۔ پنجاب مسلم لیگ ن نے سنبھال رکھا تھا اور سندھ پر پیپلزپارٹی کا قبضہ ہے اور وفاق میں باریاں لگی ہوئی تھیں۔
عمران خان کی سیاست میں آمد تو چھبیس سال قبل ہوئی مگر حقیقی طور پر پی ٹی آئی کا سورج 2013ءمیں طلوع ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ عمران خان 2018ءمیں وزیر اعظم منتخب ہوا تو اس حکومت کو جہاں دوسرے مسائل درپیش تھے وہیں معیشت کی ابتر صورت حال کا بھی سامنا تھا جو کہ عمران خان نے بڑی جانفشانی اور انتھک محنت سے اس کو سنبھالا دیا۔ آئی ایم ایف سمیت تمام دوست ممالک سے مدد لی گئی اور انہوں نے کچھ تساہل کے بعد پاکستان کو مالی امداد دینی شروع کردی اور اس کی بڑی وجہ عمران خان کی دنیا بھر میں اچھی ساکھ تھی۔ دنیا اس کو پہلے سے جانتی تھی کہ وہ ایک سوشل ورکر ہے ایک کھلاڑی ہے۔ درد دل رکھنے والا شخص ہے جس نے لوگوں سے چندہ اکٹھا کر کے کینسر ہسپتال کھڑے کردیئے۔ عالمی معیار کی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ خان کے قد کاٹھ والا پاکستانی سیاست میں کوئی شخص نہیں ہے، آج جتنی سیاسی کھیپ ہے اکثریت کرپٹ لوگوں پر مشتمل ہے۔
عمران خان نے پاکستان میں اسٹیٹس کو توڑا اور دو پارٹی سسٹم میں گھس گیا اس نے موروثی سیاستدانوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔
9 مارچ کو شب جب خان کی حکومت ختم کی گئی تو وہ ایک ڈائری اٹھا کر گھر چلا گیا اور پوچھتا رہا کہ کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے مخالف نہ ہو۔ کیوں کہ اس رات ثابت ہو گیا کہ پی ڈی ایم کا تیرہ جماعتوں کے اتحاد کے علاوہ تمام اسٹیبلشمنٹ اس کے خلاف صف آراءہو چکی تھی کیوں کہ اس نے پاکستان کے تمام مافیا کو ننگا کردیا تھا۔ خواہ وہ سیاست دان ہوں، اسٹیبلشمنٹ ہو، کاروباری لوگ ہوں، بوسیدہ عدالتی نظام ہو، عدل و انصاف کا نام تک نہ ہو، خان نے پونے چار سالہ دور میں محکوم پاکستانیوں کو بہت کچھ دینے کی کوشش کی نہ صرف پاکستانیوں کو بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق بھی دیا۔ خان نے پاکستان میں نئے نظام یعنی صدارتی نظام کو نافذ کرنے کی بھی بنیاد رکھ دی ہے جو کہ آئندہ انتخابات کے بعد منظرعام پر آئے گا۔
آئین پاکستان سے کھلواڑ اور اس کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا اور اس کی تشریح کرنا ہماری عدلیہ کا محبوب مشغلہ ہے، حالیہ مہینوں میں خان حکومت کی تحلیل ہو یا آج پرویز الٰہی کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے بحال کیا ہو اس میں بہت سارے سقم کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ موم کی ایسی ناک ہے کہ اس کو نظریہ ضرورت کے تحت جس طرح مرضی سے استعمال کرلو اور یہ ہوتا ہوا سب نے دیکھا ہے۔
جونہی 1973ءکے آئین کو جدید دور کے مطابق ہم آہنگ کرنے کی بات کی جاتی ہے تو پیپلزپارٹی کی قیادت کو 440 وولٹ کا جھٹکا لگتا ہے، انہوں نے اس دستاویز کو ذوالفقار علی بھٹو کی وصیت یا ذاتی خود نوشت سمجھ رکھا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ آئین صرف اور صرف پیپلزپارٹی کا تیار کردہ ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے اس کو بنانے اور متفقہ طور پر منظور کرنے کا سہرہ بہت سارے اس دور کے دوسرے سیاستدانوں کو بھی جاتا ہے۔ یہ ایسی دستاویز ہے جس کی خلاف ورزی روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ فوجی حکمرانوں نے اس کو Suspend کیا اور بقول شخص غداری کے مرتکب قرار پائے مگر کیا ہوا آج تک کسی ایک شخص کو بھی سزا نہیں ملی۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین پاکستان کو ازسرنو سے وزٹ کیا جائے اور اس کو جدید خطوط پر دوبارہ تحریر کیا جائے تاکہ اس میں پائے جانے والے سقم دور ہو سکیں وگرنہ اس کا استعمال اسی طرح ہوتا رہے گا جس کا اظہار پرویز الٰہی کے فیصلے کے بعد پی ڈی ایم جماعتوں نے کیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں