پاکستانیو! بہت مبارک ہو۔ آج آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی مکمل ہو گئی، پاکستان دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ پرانے پاکستان میں مسائل تو تھے مگر شاید صورتحال اس قدر مخدوش نہ تھی جو آج ہے۔ آج کے حکمران اپنی بقاءاور کرسی کے لئے آپس میں دست و گریباں ہیں۔ اس سے قبل کے سیاستدانوں میں بیان بازی تو عروج پر ہوتی تھی مگر اندرونی طور پر محبتیں فروغ پا رہی تھی، آپس میں رشتہ داریاں بنائی جارہی تھیں۔ آج پاکستان ترقی کرتے کرتے ایک ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے کہ جہاں کے جج، بیوروکریسی، جنرلز، سیاستدان اور بزنس ٹائیکون آپس میں رشتہ دار ہیں اور ملک میں صرف دو طبقہ بچے ہیں۔ ایک امیر اور دوسرا غریب۔ مڈل کلاس طبقہ صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ وفاق میں مسلم لیگ نواز کی حکومت ہے تو صوبوں میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی۔ باہمی چپقلش کا شکار وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کے پاس اس ترقی یافتہ پاکستان میں یہ فرصت بھی نہیں کہ وہ قوم کے مسائل حل کرسکیں۔ ہاں البتہ بیانات کے مزید بہلانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
کیسا المیہ ہے کہ موجودہ ترقی یافتہ پاکستان میں پانچ برس کی عمر تک کے 60 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ مگر ان کا کیا رونا یہاں تو بہترین دماغ رکھنے والے طالبعلم یا تو کوٹہ سسٹم کی نذر ہو گئے یا تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی رکشہ، ٹیکسی چلانے یا چھوٹا موٹا کاروبار کرکے پیٹ کا جہنم بھرنے میں مصروف ہیں۔
کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی
المیہ یہ ہے کہ عوام اس ظلم و جبر کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھا سکتی، اسے تو بجلی آئے یا نہ آئے، بجلی کا بل دینا ہے۔ گیس کا چولہا جلے یا نہ جلے، بل کی ادائیگی کرنا ہے۔ سڑکیں بنیں یا نہیں، گٹر کے ڈھکن لگیں یا نہیں، بارش کا پانی اور غلاظت صاف ہو کہ نہیں۔ انہیں ٹیکس میں چھوٹ نہیں۔ یہ عوام کی ذمہ داری اور واجب ہے جب کہ حکومتوں کی ذمہ داریاں اور ان کی کرپشن پر آواز اٹھانا پاکستان سے غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ عدالتوں میں بیٹھے ججوں کو کچھ کہہ دیں تو ”توہین عدالت“ فوجی جرنلوں پر انگلی اٹھا دیں تو پاکستان سے غداری۔ اب قوم اس ترقی یافتہ پاکستان میں کس بات کا رونا روئے اور کہاں روئے؟
مگر سلام ہے اس پاکستانی قوم پر کہ جہاں کوئی خوشی کا موقع آئے تو اسے ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ روٹی، کپڑا اور مکان ملے یا نہ ملے۔ بجلی گیس آئے یا نہیں، مگر جشن آزادی اسی جوش و جذبہ سے منائے گی۔ ہماری قوم کو سمجھنا ہو گا کہ حقیقی آزادی حاصل کرنے کے لئے انہیں گھروں سے نکلنا ہوگا، اپنے دشمنوں کو پہچاننا ہوگا۔ انہیں چن چن کر زندہ درگور کرنا ہوگا۔ وگرنہ آنے والا وقت مزید بھیانک صورتحال سے دوچار کرنے والا ہے۔ جنہوں نے غلامی میں زندگی گزار دی۔ ان کا کیا ذکر کرنا مگر جو پاکستان کی نئی نسل ہے جو آج سوشل میڈیا کے ذریعہ ایک دوسرے سے رابطہ میں ہے، پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس نسل کو فیس بکس اور ٹوئیٹر سے قوم کو فضولیات میں پھنسانے کے بجائے صحیح سمت میں ڈالنا ہوگا۔ اسی سوشل میڈیا کے ذریعہ انقلاب لانا ہوگا کہ اب صرف اس کو یاد کرنے اور اس پر عمل کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کہ ہر خوشہ گندم کو جلا دو
174