674

آپ کا چہرہ خاص توجہ کا طلب گار

آج کل نوجوان لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کیل مہاسوں، پھنسیوں، داغ دھبوں، جھائیوں اور چہرے کے دیگر امراض میں گھری نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ سے چہرے کی شگفتگی ختم ہونے لگتی ہے جس کے باعث چہرہ بدنما اور کشش سے محروم دکھائی دیتا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس میں پیر کو شائع رپورٹ کے مطابق جلدی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جلد میں شحمی غدود پائے جاتے ہیں جن سے ایک روغنی مادہ (sebum) خارج ہوتا ہے، یہ مادہ جلد کے مساموں کے ذریعے باہر سے نکلتا ہے۔ کبھی کبھی یہ غدود زیادہ مقدار میں روغنی مادہ بناتے ہیں جس کا مناسب اخراج نہیں ہوپاتا۔ اس کی وجہ مادہ خارج کرنے والی نالیوں کی رکاوٹ ہوتی ہے جس کے باعث روغنی مادہ خارج کرنے والے یہ شحمی غدود پھول کر چھوٹے چھوٹے دانوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، انہی کو کیل مہاسے کہتے ہیں۔ مگر عمر بڑھنے کے بعد یہ مہاسے آہستہ آہستہ خود ہی ختم ہونے لگتے ہیں۔“
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر گرم تاثیر والی غذا کھائی جائے، بے احتیاطی کی جائے، مٹاپے، جلن کڑھن اور حسد کے ساتھ ساتھ ، متفرق سوچوں کو ذہن پر سوار کرنے سے بھی یہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مزید براں اشتہاری کریموں اور دواو¿ں کا استعمال اس مرض کو بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔
رنگ گورا کرنے والی کریموں سے اجتناب کریں
پرکشش اور جاذب نظر بننا ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے لیکن اس کی تکمیل اس وقت ہی ممکن ہے جب آپ خود اپنے چہرے کا خیال رکھیں۔ ہماری نوجوان لڑکیوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ رنگ گورا کرنے والی غیر معیاری اور اشتہاری کریموں سے فوراً متاثر ہوجاتی ہیں اور سوچے سمجھے بغیر ان کا استعمال شروع کردیتی ہیں۔ ان کی وجہ سے بھی چہرے پر کیل مہاسے اور داغ دھبے نمایاں ہونے لگتے ہیں۔

سنے سنائے ٹوٹکے نہ آزمائیں
اپنے چہرے کو تجربات کی بھینٹ کبھی نہیں چڑھانا چاہیے اور نہ ہی سنے سنائے ٹوٹکوں کو آزمانا چاہیے۔ اکثر لڑکیوں کے چہرے صاف ستھرے ہوتے ہیں لیکن انہیں مزید بہتر کرنے کی خواہش میں مختلف ٹوٹکے خود پر آزمانا شروع کردیتی ہیں جس کے نتیجے میں اچھا خاصا چہرہ اپنی چمک کھودیتا ہے اور داغ دھبوں کو ابھرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

کسی اور کا میک اپ سامان استعمال نہ کریں
لڑکیوں کی ایک عادت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ سہیلیوں اور کزنز وغیرہ کی میک اپ کی اشیا بے پروائی سے استعمال کرلیتی ہیں۔ اس سلسلے میں احتیاط کیجیے کسی کا بھی میک اپ پف ، بیس، صابن اور برش وغیرہ ہرگز استعمال مت کریں، کیوں کہ آپ یہ بھی نہیں جانتیں کہ آپ کی سہیلی یا کزنز کے چہرے کی جلد کیسی ہے، اگر ان کی جلد صاف ستھری اور بے داغ ہو تب بھی محتاط رہیے۔ انسانی جلد پر کچھ ایسے امراض بھی ہوسکتے ہیں جو بہ ظاہر نظر نہیں آتے، لیکن آپ جب سہیلیوں کی چیزیں استعمال کرتی ہیں تو ان کے چہرے کی ان دیکھی بیماریاں آپ کے چہرے پر بھی منتقل ہوسکتی ہیں یا آپ کا مرض دوسرے کی جلد میں منتقل ہوسکتا ہے۔

کیل مہاسوں کو چھیڑنے سے گریز کریں
کیل مہاسوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ مت کیجیے۔ انگلیوں سے بار بار انہیں چھونے اور ناخنوں سے کھرچنے سے ان میں انفیکشن بھی ہوسکتا ہے۔ ہمیشہ ایسے صابن سے چہرہ دھوئیے جس میں چکنائی نہ ہو۔ ہاتھوں پر صابن مل کر چہرے پر دھیرے دھیرے مساج کیجیے لیکن اسے رگڑنے کی کوشش نہ کریں۔ چند لمحوں بعد ٹھنڈے پانی سے چہرہ دھولیں، لیکن کسی کپڑے یا تولیے سے چہرہ نہ پونچھیں، بلکہ پنکھا چلاکر اس کی ہوا میں چہرہ سکھالیں۔

گرم اشیا کا کم استعمال
گرم تاثیر والی اشیائ کا استعمال کم سے کم کریں۔ ناشتے میں گھی والی روٹی کے بجائے سادہ چپاتی لیجیے۔ دوپہر اور شام کے کھانے میں کچی سبزیوں کا سلاد شامل رکھیں۔ کریلے کا جوس بہت فائدے مند ہوتا ہے، اس کا جوس پینا بھی معمول بنالیجیے۔

جلنا کڑھنا چھوڑ دیں
کسی کے خوب صورت چہرے کو دیکھ کر جلنا کڑھنا چھوڑ دیجیے۔ یہ آپ کو نہ صرف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے، بلکہ سوائے تنہائی اور اذیت کے کچھ نہیں دیتا۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ جو خواتین پابندی سے نماز پڑھتی ہیں، ان کے چہرے روشن اور چمک دار ہوتے ہیں۔ پانچ وقت چہرے کو دھونے یعنی وضو کرنے سے چہرے کی ساری دھول مٹی اور گرد صاف ہوتی ہے اور چہرہ کھلا کھلا نظر آتا ہے۔

بھاپ چہرے کے لیے مفید
چہرے کی صفائی کے لیے گرم پانی کی بھاپ بھی مفید ہوتی ہے۔ ہفتے میں تین ، چار بار گرم پانی کی بھاپ اپنے چہرے پر لیں جس سے چہرے کے مسام کھلتے ہیں اور چہرہ بہ آسانی صاف ہوجاتا ہے۔ کچن میں کھانا پکاتے ہوئے یہ ضرور دیکھ لیں کہ ہانڈی کا دھواں براہ راست آپ کے چہرے پر نہ پڑے۔ دھوئیں میں شامل آئل آپ کے چہرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

اسکن اسپیشلسٹ سے رجوع کریں
عموماً کیل مہاسوں کا آغاز بلوغت سے ہوتا ہے۔ ابتدا میں ہی کسی اچھی اور ماہر اسکن اسپیشلسٹ سے رجوع کرنا چاہیے، تاکہ وہ آپ کی اسکن کا بہ غور اور تفصیلی معائنہ کرکے مناسب مشورہ دے سکے اور آپ کے چہرے کی جلد کے اس مرض کو بروقت بڑھنے سے روکا جاسکے۔

کیٹاگری میں : صحت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں