عمران خان توجہ فرمائیے! 466

افغانستان میں شراکتی حکومت دیرپا ثابت ہوگی؟

افغانستان کے چار دہائیوں پر مشتمل سیاسی اور حکومتی اکائیوں کے کرداروں پر اگر غور کیا جائے تو اس نتیجہ پر پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہونے والا حالیہ شراکتی معاہدہ دیرپا ثابت ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ 2019ءمیں ہونے والے عام انتخابات میں دونوں ن اپنی اپنی جیت کا دعویٰ کیا تھا۔ جس سے ملک میں شدید سیاسی بحران پیدا ہو گیا۔ پانچ ماہ کے طویل انتظار کے بعد افغان الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ ان انتخابات کے نتیجہ میں اشرف غنی کو 50.64 فیصد ووٹ ملے ہیں جب کہ اس کے حریف عبداللہ عبداللہ کو 39.52 فیصد ووٹ پڑے ہیں۔ افغانستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد تقریباً ایک کروڑ ہے جب کہ ان دونوں سیاسی حریفوں کو کل ملا کر بیس لاکھ سے بھی کم ووٹ پڑے ہیں۔ یعنی کل ووٹوں کا بیس فیصد یعنی رجسٹرڈ ووٹروں میں سے اسی فیصد نے ووٹ ہی نہیں ڈالا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان انتخابات کو عوام کی کتنی حمایت حاصل ہے۔
9/11 کے بعد اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے افغانستان پر یلغار کی تو اس وقت طالبان کی حکومت تھی۔
امریکہ نے الزام لگایا کہ 9/11 کا ماسٹر مائنڈ اسامہ ہے اور وہ طالبان کی حکومت کی سرپرستی میں وہاں چھپا ہوا ہے لہذا اس کو عبرت کا نشان بنا ضروری ہے جب امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا تو اسامہ کی تلاش کے ساتھ ساتھ امریکا نے اعلان کیا کہ وہ افغانستان کی مختلف شعبوں میں ترقی میں بھی مدد کرے گا۔ جس کے نتیجہ میں بیس سالوں میں اربوں ڈالر افغانستان میں خرچ کئے گئے جن کا بڑا حصہ امریکی فوجیوں پر خرچ ہوا نہ کہ افغانستان کی تعمیر و ترقی پر۔ اور باقی پیسے افغانستان کے وار لارڈز اور حکومتی کارندے ڈکار گئے۔ عوام تک کچھ نہ پہنچا۔ 9/11 کے وقت افغانستان میں غربت کی شرح 35 فیصد کے قریب تھی جو کہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق 55 فیصد ہے۔
امریکہ کی آمد سے افغان عوام کو کیا ملا، ٹنوں بارود برسایا گیا، ہوائی حملوں سے شادی کی تقاریب کو نشانہ بنایا گیا۔ طالبان کو ٹھکانے لگانے کی اڑ میں معصوم افغانی عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو لقمہ اجل بننا پڑا۔ امریکی ڈرون حملوں سے نہ صرف افغانستان میں لوگوں کو مارا گیا بلکہ عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے سرحدی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا اور بقول امریکہ طالبان کے ساتھیوں اور معاونین کو مارا گیا۔ جس سے ہمارے قبائلی عوام میں امریکی اور پاکستانی حکومت کے خلاف بھی سخت نفرت پیدا ہوگئی۔
9/11 سے شروع ہونے والی امریکہ طالبان جنگ سے ہمارا ملک بارود کا ڈھیر بن گیا ہم نے امریکہ کا ساتھ دے کر ستر ہزار سے زائد قیمتی جانیں گنوائیں اور ہماری معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ پاکستان نے اس جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کیا جو کہ صریحاً بہت بڑا غلط فیصلہ تھا۔ پرائم منسٹر عمران خان واحد شخص تھا جو پہلے دن سے ہی اس فیصلہ کے خلاف تھا اور اس کا موقف آج سب تسلیم کررہے ہیں کہ افغان جنگ کا واحد حل مذاکرات ہیں۔
ترمپ کے اقتدار میں آتے ہی امریکی انتظامیہ کو احساس ہونے لگا کہ ہمیں مزید جنگ کی بجائے مذاکرات کرنا ہوں گے کیوں کہ امریکہ اب مزید جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ جہاں اس نے اربوں ڈالر ضائع کئے ہیں، لاکھوں افغانیوں اور پاکستانیوں کو جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے، اس کے علاوہ ہزاروں امریکی اور نیٹو فوجی طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہوئے، ہزاروں شدید زخمی اور اپاہج ہو کر امریکہ کے فوجی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہم دنیا کے پولیس مین نہیں ہیں، ہمیں یہ جنگ ختم کرنا ہے اور یہی پیسہ امریکی عوام پر لگنا ہے۔ اس کام کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے امریکی صدر نے پاکستان سمیت مختلف ممالک سے رابطے کئے اور ان سے مدد کی درخواست کی۔ ذلمے خلیل زاد کو امریکی صدر کا نمائندہ برائے افغان امور مقرر کیا گیا کیونکہ وہ افغانستان میں امریکا کا سفیر رہ چکا تھا اور اس خطے کے حالات سے اچھی طرح واقف تھےا۔ اس نے شبانہ روز محنت کرکے طالبان کو امادہ کیا کہ وہ مذاکرات شروع کریں، اس مقصد کے لئے قطر کا دارالحکومت دوحا منتخب کیا گیا کیوں کہ وہ ایک نیوٹرل مقام تھا ان مذاکرات میں بڑے نشیب و فراز آئے، مگر اللہ اللہ کرکے 2020ءکے اوائل میں امریکہ طالبان معاہدہ طے پا گیا جس کے نتیجہ میں امریکہ کو مرحلہ وار چودہ ماہ میں افغانستان سے فوجیں نکالنی ہیں۔ جس کے لئے اسے محفوظ راہداری مہیا کی جائے گی اور طالبان القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس سے علیحدہ رہیں گے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے۔ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان پرامن اور خوشحال افغانستان کے لئے مل جل کر کام کرنے کا آغاز ہوگا۔
پاکستانی حکومت نے عمران خان اور جنرل باجوہ کی قیادت میں بڑا اہم رول ادا کیا اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہو گیا۔ جس کی تعریف ٹرمپ نے بھی کی کیوں کہ امریکا جانتا تھا کہ پاکستانی فوج کا اثر و رسوخ طالبان تک بڑا واضح تھا اور اس کے بغیر یہ معاہدہ ہو نہیں سکتا تھا یہ معاہدہ پاکستان کو پرامن ملک بنانے کے لئے بھی بہت ضروری تھا۔ ملک پر دہشت گردی کا جو الزام لگتا تھا اسے ختم کرنے میں بڑی مدد ملی۔ آج اس معاہدہ کے اور پاکستان کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہو چکا ہے ہم دہشت گرد ملک سے پرامن ریاست کی طرف گامزن ہیں۔ ہم پر بہت ساری عالمی پابندیاں ختم ہو چکی ہیں اس تاثر کو بہتر بنانے میں پرائم منسٹر عمران خان کی مدبرانہ سوچ اور حکمت عملی کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہئے۔
2019ءمیں افغان صدارتی انتخابات میں ریشہ دوانیاں اس امر کا ثبوت ہیں کہ افغان سیاسی قیادت شدید اضطراب کا شکار ہے، کئی ماہ کے التواءکے بعد اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہونے والا حکومتی شراکتی معاہدہ غیر پائیدار نظر آتا ہے کیونکہ اس کے پس پردہ امریکا کا دباﺅ کارفرما ہے اور امریکہ طالبان معاہدہ کے مطابق اس پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے جسے کسی صورت امریکہ التواءمیں نہیں ڈال سکتا۔ اس لئے ان دونوں سیاسی حریفوں کو شراکت داری کروا کے اپنا مقصد حاصل کیا جارہا ہے۔ امریکہ کی فوجوں کے انخلاءکے ساتھ ہی یہاں دھینگا مشتی شروع ہو جائے گی۔ افغان سیاسی لیڈروں کی ایک بھیانک تاریخ ہے۔ یہ کرپٹ افراد کا ٹولہ ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگ زدہ افغانستان سے مالی اور حکومتی مفادات حاصل کررہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں