عمران خان توجہ فرمائیے! 567

بھٹو اور ضیاء: ذوالفقار علی بھٹو کی وہ ”غلطیاں“ جو فوجی بغاوت کا باعث بنیں

بھٹو اور ضیاء: ذوالفقار علی بھٹو کی وہ ”غلطیاں“ جو فوجی بغاوت کا باعث بنیں

ذوالفقار علی بھٹو نے جیسے ہی صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالا انہوں نے صدر یحییٰ خان کو گھر میں نظر بند کردیا اور جنرل گل حسن سے فوج کی قیادت سنبھالنے کو کہا۔ اس کے بعد انہوں نے بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کے 44 سینئر افسران کو یہ کہتے ہوئے فارغ کردیا کہ وہ فربہ ہو گئے ہیں اور ان کا پیٹ باہر آگیا ہے۔ مشرقی پاکستان میں شکست پاکستانی فوج کو بیک فٹ پر لے آئی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد جنرل گل حسن ان کے دل سے اتر گئے اور انہیں ایک ایسے چیف کی ضرورت پڑ گئی جو آنکھیں موند کر ان کے حکم کو بجا لائے۔
”اوون بینٹ جونز“ نے اپنی کتاب ”دی بھٹو ڈائنسٹی اسٹرگل فار پاور ان پاکستان“ میں لکھا ہے کہ بھٹو نے جنرل گل حسن کو برخاست کرنے کا حکم اپنے اسٹینوگرافر کی بجائے اپنے ایک سینئر ساتھی سے ٹائپ کروایا۔ جنرل گل حسن کی برخواستگی کے بعد انہوں نے اپنے ایک قابل اعتماد ساتھی غلام مصطفیٰ کھر سے جنرل گل حسن کے ساتھ لاہور جانے کو کہا تاکہ گل حسن سے اس وقت تک کوئی رابطہ نہ ہو جب تک کہ ان کے جانشین کی تقرری کا حکم جاری نہ ہو جائے۔
اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے ممکنہ عہدیداروں کو ایک فرضی اجلاس کے لئے طلب کیا گیا اور انہیں اس وقت تک وہاں رکھا گیا جب تک کہ گل حسن کا استعفیٰ نہیں لے لیا گیا۔ ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنوں پر پولیس تعینات کردی گئی، اور پیپلزپارٹی نے راولپنڈی میں ایک عوامیجلسہ اس مقصد کے ساتھ منعقد کیا کہ کہیں صدر بھٹو کو اس معاملے میں عوامی حمایت کی ضرورت نہ پڑ جائے۔ گل حسن کے بعد بھٹو نے اپنے قابل اعتماد جنرل ٹکہ خان کو پاکستانی فوج کا سربراہ مقرر کیا، کچھ ہی مہینوں میں بھٹو کا تکبر اتنا بڑھ گیا کہ انہوں نے پارٹی کے سینئر ساتھیوں کی بھی توہین شروع کردی۔
بھٹو کی سوانح عمری، ذلفی بھٹو آف پاکستان میں اسٹینلے وولپرٹ نے لکھا: 2 جولائی 1974ءکو بھٹو نے صدارتی امور کے وزیر جلال الدین ابراہیم المعروف جے اے رحیم اور متعدد سینئر ساتھیوں کو عشائیہ پر مدعو کیا۔ عشائیہ کا وقت آٹھ بجے تھا لیکن میزبان بھٹو وہاں نہیں پہنچے۔ جب رات کے بارہ بج گئے تو رحیم نے اپنا گلاس میز پر رکھا اور چیخ کر کہا ”تم سب چمچے جب تک چاہو اس وقت تک لاڑکانہ کے مہاراج کا انتظار کرو، میں تو گھر جا رہا ہوں“۔ جب بھٹو ضیافت پر پہنچے تو حفیظ پیرزادہ نے انہیں رحیم کے ریمارکس کے بارے میں بتایا۔ دیر رات گئے وزیر اعظم کی سیکورٹی کے سربراہ نے رحیم کے گھر جا کر انہیں اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گئے، جب رحیم کے بیٹے سکندر نے اس معاملہ میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تو اسے بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
جب ٹکا خان کی مدت ملازمت ختم ہوئی تو انہوں نے بھٹو کو اپنے جانشین کے لئے ممکنہ سات لوگوں کی فہرست بھجوائی۔ اس میں انہوں نے دانستہ طور پر ضیاءالحق کا نام نہیں رکھا کیوں کہ انہیں حال ہی میں لیفٹننٹ جنرل کے عہدہ پر ترقی دی گئی تھی لیکن بھٹو نے انہی کا انتخاب کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ضیاءنے بھٹو کی چاپلوسی میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ اوون جونز بینٹ لکھتے ہیں، کئی بار جنرل ضیاءنے اپنے ملک اور فوج کی خدمات کے بدلے بھٹو لو تلوار پیش کی، ایک بار انہوں نے بھٹو کو نہ صرف آرمرڈ کور کا تنخواہ نہ لینے والا چیف کمانڈر قرار دیا بلکہ ان کے لئے فوج کی مخصوص وردی بھی سلوائی۔
بھٹو کی سوانح عمری میں اسٹینلے وولپرٹ لکھتے ہیں: ضیاءنے کبھی یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ کوئی فوجی بغاوت کر سکتے ہیں، بھٹو نے کبھی انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا، وہ اکثر ان کے دانتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان کے بارے میں ایک کہانی مشہور تھی کہ ایک بار ضیاءسگریٹ پی رہے تھے اسی وقت بھٹو کمرے میں داخل ہوئے، اس خوف سے کہ بھٹو کو اپنے سامنے سگریٹ پیتے دیکھ کر برا نہ لگے فوراً جلتی سگریٹ اپنی جیب میں ڈال لی۔ تھوڑی دیر بعد کمرے میں کپڑے جلنے کی بو پھیل گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سوچا کہ جو شخص ان سے اس قدر ڈرتا ہے ان کے خلاف کیسے بغاوت کر سکتا ہے؟
اسی دوران بھٹو حکومت کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے، بھٹو کی بہترین کاوشوں کے باوجود امن و امان بحال ہوتا نظر نہیں آرہا تھا، لاہور میں تین بریگیڈیئرز نے لوگوں پر فائرنگ کرنے سے انکار کردیا، ایک جگہ فوجیوں نے لوگوں پر گولی چلانے کے حکم کی تعمیل کی لیکن انہوں نے ہجوم کے سر سے اوپر فائرنگ کی۔
اوون جونز بینٹ لکھتے ہیں: بھٹو کی سب سے بڑی غلطی اپنے مخالفین سے مذاکرات میں آرمی کور کمانڈروں کو شامل کرنا تھا۔
وہ لکھتے ہیں: بھٹو کے نقطہ نظر سے وہ فوج کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کررہے تھے، لیکن فوجی افسران نے انہیں دوسری نظر سے دیکھا، ان کے خیال میں بھٹو کے اس اقدام سے ظاہر ہوا کہ وہ کمزور ہیں اور حکومت چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ تمام تر مخالفت کے باوجود بھٹو نے 7 مارچ 1977ءکے عام انتخابات کروائے۔ آنے والے انتخابی نتائج ر عام پاکستانیوں نے بھی یقین نہیں کیا۔ بھٹو کی پیپلزپارٹی کو قومی اسمبلی کی 200 میں سے 155 نشستیں ملیں جب کہ حزب اختلاف پیپلز نیشنل الائنس کو اس قدر تشہیر کے باوجود صرف 36 نشستیں ملیں۔
1970ءمیں جب پیپلزپارٹی اپنی مقبولیت کے عروج پر تھی اس وقت اسے صرف 39 فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ ان انتخابات میں ان کا ووٹ 55 فیصد ہو گیا تھا جو کہ کھلا تضاد تھا۔ انتخابات کے بعد کے ماحول کا ذکر کرتے ہوئے کوثر نیازی نے اپنی کتاب ”لاسٹ ڈیز آف پریمیئر بھٹو“ میں لکھتے ہیں، وزیر اعظم اپنی رہائش گاہ پر پیرزادہ، رفیع رضا اور اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے تھے، پیرزادہ کی طرف دیکھ کر بھٹو نے پوچھا ”حفیظ کتنی نشستوں پر دھاندلی ہوئی ہوگی؟“ ان کا جواب تھا ”30 یا 40“ پر، بھٹو نے کہا کہ کیا ہم اپوزیشن سے ان نشستوں پر دوبارہ انتخابات لڑنے کے لئے نہیں کہہ سکتے؟ ہم ان نشستوں پر ان کے خلاف اپنا امیدوار کھڑا نہیں کریں گے۔
بھٹو چاہتے تھے کہ وہ لارکانہ سے بلا مقابلہ منتخب ہوں، جب کہ ان کے مشیر رفیع رضا اس کے سخت خلاف تھے، بھٹو کے خلاف الیکشن لڑنے والے پی این اے امیدوار کو ایک اور سیٹ لڑنے کی پیش کش کی گئی تھی اور انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ بلا مقابلہ جیت جائیں گے انہوں نے اس پیش کش کو قبول نہیں کیا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں اغواءکرلیا گیا تاکہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی جمع نہ کرواسکیں۔ اوون بینٹ جونز لکھتے ہیں کہ حفیظ پیرزادہ نے انہیں بتایا تھا کہ انتخابات میں گڑبڑ اس واقع سے شروع ہوئی تھی، بھٹو کو دیکھ کر پیپلزپارٹی کے 18 امیدواروں نے بھی یہ یقین دہانی چاہی تھی کہ کوئی بھی امیدوار ان کے خلاف کھڑا نہ ہو۔
معروف صحافی خالد حسن نے اپنی کتاب ”ریئر ویو مرر فور میموریز“ میں لکھا ہے، بھٹو کے ایک مشیر راجہ انور نے فوجی بغاوت سے ذرا قبل بھٹو اور جنرل ٹکا خان کے درمیان ایک ملاقات دیکھی تھی۔ بھٹو نے ٹکا خان سے کہا: جنرل آپ کو یاد ہے آپ نے ضیاءکو آرمی چیف بنانے کی مخالفت کی تھی، اب آپ کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ میں نے صحیح فیصلہ کیا تھا، اگر کوئی دوسرا آرمی چیف ہوتا تو وہ امن و امان کا عذر بنا کر اب تک اقتدار سنبھال چکا ہوتا۔۔۔ سات گھنٹے بعد ضیاءالحق نے بھی وہی کیا۔ گرفتاری کے بعد بھٹو پر اپنے پرانے سیاسی حریف محمد احمد خان قصوری کے قتل کا الزام عائد کیا گیا، سرکاری گواہ محمود مسعود نے گواہی دی کہ بھٹو نے انہیں قصوری کے قتل کا حکم دیا تھا۔ وکٹوریہ سکو فیلڈ اپنی کتاب ”بھٹو ٹرائلز اینڈ ایگزیکیویشن“ میں لکھتی ہیں، مولوی مشتاق حسین پانچ ججوں کی بنچ کے سربراہ تھے، بھٹو کے ساتھ اس کی پرانی دشمنی تھی، جب بھٹو اقتدار میں تھے تو انہوں نے دوبار ان سے جونیئر ججوں کو ان سے پہلے پروموٹ کیا تھا۔ جج مولوی مشتاق حسین کا بھٹو سے مکالمہ: سماعت کے دوران جب بھٹو نے عدالت میں خصوصی طور پر تعمیر شدہ کٹہرے میں بیٹھے جانے کے حکم پر اظہار برہمی کیا تو مشتاق حسین نے طنزیہ لہجہ میں کہا ”ہمیں معلوم ہے کہ آپ آرام طلب زندگی گزارنے کے عادی رہے ہیں، اس کا خیال کرتے ہوئے ہم نے کٹہرے میں آپ کے لئے کرسی کا بندوبست کیا ہے ورنہ آپ کو عام مجرموں کی طرح بنچ پر ہی بٹھایا جاتا“۔
مولوی مشتاق کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ بنچ نے بھٹو کو سزائے موت سنائی، بھٹو نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی، فروری 1979ءمیں سپریم کورٹ نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے پر 4/3 کے فرق سے مہر لگادی۔
اوون جونز بینٹ لکھتے ہیں: اس سے پہلے کبھی بھی قتل کی سازش کے مقدمے میں موت کی سزا نہیں سنائی گئی تھی اور نہ ہی عدالت عظمیٰ کے ججز مجرم کی سزا اور جرم کے بارے میں متفق تھے، اس سزا پر بھی سوالات اٹھے تھے کہ ملزم کو اس وقت بھی قتل کا مجرم ٹھہرایا گیا تھا حالانکہ وہ جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھا۔ بھٹو نے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی لیکن اس بنیاد پر اسے مسترد کردیا گیا کہ اس میں یہ بحث نہیں کی گئی کی پچھلے دو مرحلے کے فیصلے میں قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ روس کے صدر بریزنیف، چین کے سربراہ ہواگیوفینگ اور سعودی عرب کے شاہ خالد سمیت دنیا بھر کے متعدد رہنماﺅں نے بھٹو کی سزا کی معافی کی اپیل کی تھی۔ برطانیہ کے وزیر اعظم جیمز کلیگھن نے جنرل ضیاءکو تین خط لکھے جس میں ایک خط کے آخر میں انہوں نے لکھا ”بطور فوجی آپ کو ایک پرانی بات یاد ہو گی کہ میدان جنگ میں تو گھاس بہت جلد آگ پکڑتی ہے لیکن تختہ دار پر کبھی نہیں، لیکن ضیاءنے بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ آخر میں معاملہ رحم کی درخواست تک پہنچا۔
پاکستان میں ضروری نہیں کہ مجرم یا اس کے اہل خانہ کی طرف سے صدر کے پاس رحم کی التجا کی درخواست کی جائے لیکن پھر بھی اس خیال کے تحت کہ کہیں ضیاءیہ بہانہ بنا کر بھٹو کو پھانسی نہ دے دیں کہ ان کے اہل خانہ نے ان کے لئے کچھ نہیں کیا بھٹو کی ایک بہن شہربانو امتیاز کی جانب سے رحم کی اپیل کی گئی۔
یکم اپریل 1979ءکو شام جنرل ضیاءنے سرخ روشنائی میں تین الفاظ لکھے:
“Petition is Rejected”
یعنی ”اپیل مسترد کی جاتی ہے“۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں