تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 399

بھٹو ایک قوم پرست ایک مدبر

شیخ مجیب الرحمن 1920ءمیں ضلع فریدپور مشرقی پاکستان کے ایک گاﺅں میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک ہنگامہ خیز اور جذباتی طبعیت کے حامل انسان تھے۔ لسانی تحریک کے دوران شیخ مجیب کے ہنگامہ خیز کردار نے انہیں ایک نمایاں حیثیت بخشی وہ ایک طالب رہنما کی سطح سے بلند ہو کر صوبائی قوم پرست کی حیثیت سے نظر آتے تھے جس کے پس منظر میں قائد اعظم کا وہ اعلان تھا جس میں اردو صرف اردو پاکستان کی واحد قومی زبان ہو گی۔ 1954ءمیں جگتوفرندٹ کی حکومت میں وہ وزیر کی حیثیت سے شامل کئے گئے۔
ان کی ملک گیر شہرت اگرتلا کیس کے حوالے سے ایوب خان کی حکومت کے دوران سامنے آئی اس وقت ایوب خان کی حکومت کے وزیروں میں سندھ کے ایک جاگیردار گھرانے کے فرزند ذوالفقار علی بھی شامل تھے۔ جنہیں تاشقند کے معاہدے کے بعد سے مقبولیت ملنی شروع ہوئی۔ دوسری طرف مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان میں اپنے چھ نکات پیش کرکے وہاں کے واحد قوم پرست لیڈر کی حیثیت سے مضبوط حلقہ اثر قائم کرلیا تھا۔ اس طرح جب 1970ءکے انتخابی مقابلے میں مرکزی اسمبلی میں 132 نشستیں حاصل کرکے انہوں نے اپنی پوزیشن بہت طاقتور کرلی تھی۔
دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے اپنی قابلیت سے ایوب خان کو بہت متاثر کیا اور اسکندر مرزا کی بیگم اور نصرت بھٹو کی دوستی کا بھرپور فائدہ اٹھایا، بالاخر ایوب خان کی صدارت میں ایک وزیر کی حیثیت سے اپنی ملکی سیاست کا آغاز کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو بے حد ذہین انسان تھے اس کے ساتھ یورپ کی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، ساتھ ساتھ جاگیرداری کی وجہ سے بے پناہ دولت مند لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ حکومت میں شامل ہو کر ملک کے سیاسی نظام کے بارے میں بخوبی آگاہ تھے جس کی وجہ سے وہ ملکی اشرافیہ کو بھی قریب سے جان چکے تھے۔ وہ فوج کے کردار سے بھی بخوبی واقف ہو چکے تھے ان کو یہ اندازہ لگانے میں کوئی دشواری نہیں محسوس ہوئی کہ ان کے لئے کن حلقوں کو متاثر کرنا آسان ہو گا اور کون سے طبقات ان کے لئے مستقبل میں دشواریوں کا باعث ہوں گے۔ یوں انہیں اپنے مستقبل کی راہ کا تعین کرنا آسان ہو گیا۔ انہوں نے یہ بھی جان لیا کہ ملکی سطح پر پنجاب اور فوج کی حمایت کے بغیر ان کے مقاصد کا حصول ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہوگا۔
دوسری طرف بنگالی عوام جو برصغیر کی سیاست میں بے پناہ سعور کے مالک سمجھے جاتے تھے ان کو متاثر کرنا تقریباً ناممکن ہے اور سندھ میں سندھی قوم پرستوں اور سندھ میں رہنے والے اردو داں طبقے کوبھی متاثر کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔ انہوں نے سب سے پہلے فوج کی حمایت حاصل کرنے کے لئے پہلے تو ایوب خان کی حکومت میں شمولیت اختیار کی اس کے بعد یحییٰ خان کی زیر نگرانی نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے اپنے مستقبل کی راہ کا تعین کیا۔ اس طرح انہوں نے اہل پنجاب کی حمایت بھی حاصل ہوتی گئی وہ وہاں آہستہ آہستہ سندھی قوم پرست کے بجائے پاکستان کا مقدمہ لڑنے والے محب وطن رہنما کی حیثیت سے اپنا ایک اہم مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے طاقتور حریف مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام کو اپنے راستے میں حائل رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے فوج، بیوروکریسی اور پنجابی جاگیرداروں کو اپنا ہم خیال بنانا شروع کیا۔ اس ہی طرح سندھ میں اردو دان طبقے کو متاثر کرنے کی کوششیں بھی کیں لیکن کبھی ان کو سوشلزم کے نعرے سے راغب کرنے کی کوشش کی، کبھی وہ اپنے اہل تشیع ہونے کا سہارا لیتے، کبھی اپنی بے پناہ مسحور کن شخصیت اور ذہانت سے ان کو راغب کرنے کی کوشش کرتے جس کی وجہ سے وہ ان طبقوں میں کچھ حد تک قبولیت حاصل کر سکے۔ لیکن اس کے باوجود کم از کم وہ بنگالیوں اور ان اردوداں طبقے کو زیادہ متاثر نہیں کر سکے تو انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا انہوں ایک طرف سندھی قوم پرستوں میں اپنے آپ کو ایک نجات دھندہ کی حیثیت سے پیش کیا اور بنگالیوں کو اپنے راستے کی دیوار بننے سے روکنے کے اقدامات شروع کردیئے۔ سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید اور عبدالواحد آریسر اور دوسرے بڑے سندھی مفکروں نے ان کی مخالفت میں بہت مزاہمت کی، دوسری طرف مہاجروں نے بھی ان کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کو وہ اپنا حریف سمجھتے تھے، اندرونی طور پر وہ فوج کے مخالف ضرور تھے لیکن انہوں نے مخالف عناصر کا مقابلہ کرنے کے لئے فوج کی حمایت حاصل کرکے ان کا کچھ حد تک اعتماد حاصل کرلیا۔ فوج کے اقتدار کے نشے سے بھرپور موٹے دماغوں والے حکام کو اپنے راستے کی رکاوٹیں دور کرنے کے لئے استعمال کرنا شروع کیا اور فوج کے بڑے حکام کی اس سوچ کو ابھارنے میں ان کی مدد کی کہ جو ان کے راستے میں آئے اس کو طاقت کے بل پر زیرنگوں کیا جائے۔ فوج کے حکام کو بھی کسی ایسے ہی سویلین چہرے کی ضرورت تھی جو ان مقاصد کی تکمیل میں ان کا ساتھ دے سکے، اس طرح شروع میں ایوب خان نے اپنی سیاسی حمایت کے لئے ٹیم تیار کی اس میں نوجوان ذہین اعلیٰ تعلیم یافتہ دوسروں کو اپنا گرویدہ بنانے والے ذوالفقار علی بھٹو سرفہرست تھے جنہوں نے ایوب خان کا ساتھ بھی خوب نبھایا۔ ان کی شخصیت کے کمالات اس وقت سامنے آنا شروع ہوئے جب محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف بھرپور انتخابی مہم چلاکر ایوب خان کی خودساختہ کامیابی کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ یوں ایوب خان کا بھرپور اعتماد حاصل کرنے میں کامیابی بھی حاصل کرلی اور ان کے خاص وزیروں میں شامل ہو گئے۔ مگر جب انہوں نے دیکھا کہ ایوب خان کی گرفت ڈھیلی پڑنی شروع ہو گئی ہے تو اس کو 1965ءکی جنگ میں شامل ہونے سے روکنے کے بجائے اس کو اس میں کودنے پر اکسایا اور بعد میں شملہ معاہدہ کے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھا کر ان سے اپنی راہیں الگ کرلیں۔ یوں انہوں نے اپنی پارٹی بنانے کا اعلان کردیا۔ جس میں انہوں نے پنجاب اور مہاجروں کے بہترین دماغوں کو اپنے ساتھ ملا کر عوام کے دل کو چھونے والے منشور اور نعروں کے ذریعہ مغربی پاکستان کے عوام بالخصوص پنجاب اور سندھی عوام کو اپنا گرویدہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ان کے نعرہ ”روٹی، کپڑا اور مکان“ نے تو بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور پڑوسی ملک کے ایک ایکٹر منوج کمار نے تو اپنی فلم بھی ”روٹی، کپڑا اور مکان“ کے نام سے بنانے کا اعلان کیا۔
ان کے نعرے سوشلزم نے بھی مذہبی جماعتوں کے مخالفین کو اپنی طرف بڑی حد تک راغب کیا جن میں بائیں بازو کے مہاجر بھی شامل تھے لیکن وہ سندھ میں مہاجروں کی اکثریت کو متاثر کرنے میں خاطر خواہ کامیاب نہیں ہو سکے اس ہی طرح مشرقی پاکستان کے عوام جو شیخ مجیب کے حلقہ اثر میں بری طرح آچکے تھے وہ بھی بھٹو صاحب کے حلقہ میں آنے سے منکر رہے کیونکہ شیخ مجیب نے بھی مشرقی پاکستان باشعور لوگوں میں اپنے چھ نکات کے ذریعہ جس میں مغربی پاکستان کی اشرافیہ کی بالادستی کے خلاف ایک مزاہمت تھی مقبولیت کی انتہاﺅں پر ان سے حقیقت حاصل کرلی تھی وہ ہی چھ نکات جس کے لئے اب چھوٹے صوبے 18 ویں ترمیم میں شامل کرکے اپنی خودمختاری کی حفاظت کررہے ہیں اس وقت بھٹو اس کے سب سے بڑے مخالف تھے۔
آج اندرون سندھ کے سندھی اور وڈیرے سندھ کے اوطاقوں سے نکل کر دنیا بھر کے عالی شان تفریح گاہوں میں شاہ خرچیاں کرکے مزے کررہے ہیں یہ سب کچھ ذوالفقار علی بھٹو کی مرہون منت ہے جس نے ان کو غیروں کے غلبہ سے نکال کر دنیا کی بہترین قوموں کے ساتھ لا کر کھڑا کردیا۔ یہ سندھی باشندے جو پہلے بڑے عرصے تک ہندو بنیوں کے زیر تسلط رہے ہمیشہ ان کے غلاموں کی حیثیت سے محرومیوں کی زندگی گزارتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے آنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ ذہین محنت کش نئے وطن کی محبت سے سرشار مہاجروں نے جب سندھ میں تیزی سے غلبہ حاصل کرنا شروع کیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے جو ان کو اپنا مخالف سمجھتے تھے اپنی اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے اس پنجاب کو اپنا ہمنوا بنا کر جو اس سے پہلے مہاجروں کے ساتھ تھے اپنا ایسا راستہ اختیار کیا کہ آہستہ مہاجر ان کے راستے سے ہٹتے چلے گئے اور ان کی جگہ سندھ میں سندھی باشندوں کا عروج ہونا شروع ہو گیا۔ یوں پورے پاکستان میں مہاجروں کی جگہ آہستہ آہستہ سندھی باشندوں نے حاصل کرلی۔ بھٹو کے چاہنے والوں کو ذوالفقار علی بھٹو کا نہ صرف احسان مند ہونا چاہئی بلکہ اس کے خاندان کو بھی سندھ کا شاہ لطیف اور لال شہباز قلندر کے بعد کا درجہ دے کر پوجا کرنی بھی پڑے تو وہ بھٹو خاندان کا احسان نہیں چکا سکیں گے۔ اس کا اندازہ آج سندھ کے بڑے شہر میں سندھی باشندوں کے غلبہ کے ساتھ شاہ لطیف اور لال شہباز قلندر کے مزاروں کے بعد بھٹو خاندان کے عالی شان مقبروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ امید یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ خوشحالی سندھی عوام میں نیچے تک پہنچ سکے یہ ہی بھٹو خاندان کی قربانی کا مقصد تھا جو انہوں نے اپنے نعرے ”روٹی، کپڑا اور مکان“ میں لگایا۔ یہ روٹی، کپڑا اور مکان سندھی ہاریوں تک کب تک پہنچ سکتا ہے جس طرح مجیب الرحمن کے خاندان کی قربانیوں کے سبب آج بنگالی پاکستان اور بھارت کے مقابلے میں خوشحالی حاصل کر چکے ہیں اس ہی طرح بھٹو خاندان کی قربانی سے سندھی باشندے بھی خوشحال ہوں۔ وہ مہاجر جنہوں نے پاکستان کی خاطر جان و مال کی قربانیاں دے کر سندھ اور پاکستان کے اداروں کو اپنی ذہانت اور لیاقت کے ساتھ ساتھ مضبوط بنایا وہ اب پاکستان کے اندر دوسرے درجے کے شہری بنتے جارہے ہیں۔ پنجاب نے بھی جو ان کو اپنا حریف سمجھتا تھا ان کے مقابلے میں سندھی باشندوں کے ساتھ مل کر آہستہ آہستہ ملکی محکموں سے فارغ کرکے ان کی جگہ سندھی باشندوں کو خوش آمدید کہنا شروع کردیا۔ وہ ادارے جن کی مثال دنیا بھر میں دی جاتی تھی آہستہ آہستہ تباہی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ آج پاکستان تاریخ کے بدترین دور سے اس ہی وجہ سے گزر رہا ہے کہ ہر کوئی اس میں لوٹ کھسوٹ میں لگا ہوا ہے، کوئی اس کی حفاظت کا نہیں سوچ رہا ہے۔ محب وطن دور سے کھڑے پاکستان کی کشتی کو آہستہ آہستہ ڈوبتے دیکھ رہے ہیں۔
محافظان گلستاں نے خوب کام کیا
وطن کو خود ہی اجاڑا خزاں کا نام کیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں