بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 481

تبدیلی کی ہوا

مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ آہستہ آہستہ اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے۔ جس میں لاٹھی بردار، کلاشنکوف بردار اور پرجوش کارکنان شامل ہیں۔ یہ قافلہ دراصل پاکستان کے دارالحکومت کو آزاد کرانے آرہا ہے۔ اکثر سیاسی مبصرین کے خیال میں اگر مولانا فضل الرحمن کو پاکستان آزاد کرانا ہے تو انہیں اسلام آباد نہیں بلکہ راولپنڈی کا رُخ کرنا چاہئے کیونکہ ملک میں اصل حکمرانی تو بوٹوں والی سرکار کی ہے۔ آزادی مارچ سے قبل مولانا فضل الرحمن نے جو تقریریں کیں ان میں بھی انہوں نے عمران خان سے زیادہ فوجی جرنیلوں کے لئے دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا اور انہیں اپنی حدود میں رہنے کی تنبیہہ کی۔ مولانا کے نائب نے بھی ایک بیان میں کہا کہ ہم اسلام آباد اس لئے جارہے ہیں کہ اس طوطے کو پکڑیں جس کی گردن دبے گی تو چیخیں راولپنڈی میں سنائی دیں گی۔ قصہ مختصر کہ ملکی حالات نہایت تناﺅ کا شکار ہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ پر کڑا وار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے خیال میں مولانا کا لہجہ اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ انہیں بیرونی سپورٹ حاصل ہے اور خیال کیا جارہا ہے کہ مولانا کی آزادی مارچ اگر کامیاب ہو گئی تو مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کی پوزیشن مزید کمزور ہو جائے گی تاہم لگتا نہیں کہ مولانا فضل الرحمن، مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کی سپورٹ کے بغیر حکومت کے لئے کوئی بڑا مسئلہ پید اکرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ امکان ہے کہ رینجرز کو الرٹ کردیا گیا ہے اور آزادی مارچ کی نگرانی کے لئے رینجرز طلب کی جارہی ہے۔
دوسری جانب خبر ملی ہے کہ جمیعت علماءاسلام کے مقامی رہنما مفتی سلطان محمود کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا ہے۔ اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن پر بھی قاتلانہ حملہ کیا جائے۔ ایسی صورت میں حکومت کے لئے حالات کو قابو کرنا نہایت مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ خراب معیشت کے باعث امکان ہے کہ عوام مولانا کے آزادی مارچ کا ساتھ دیں گے اور یوں حکومت لرز کر رہ گئی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فوج اور حکومت بظاہر ایک صفحہ پر دکھائی دیتی ہیں اور وفاقی کابینہ کی ایگزیکٹو کمیٹی میں دو اعلیٰ فوجی افسران کو بھی شامل کرلیا گیا ہے تاکہ ملکی اور غیر ملکی حالات پر نظر رکھنے کے لئے حکومت اور فوج کے درمیان ہم آہنگی رہے۔ تاہم اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حکومت گھبرا گئی ہے۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ دنوں بیان دیا کہ حکومت پانچ سال پورے کرے گی جب کہ مولانا فضل الرحمن کے بیان کے مطابق آزادی مارچ کے 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخلہ کے ساتھ ہی حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اصل جنگ فوجی جرنلوں اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان ہے اور کئی بیرونی طاقتیں اس بار پاکستان کی عسکری اداروں کی کمر پر آخری وار کرنا چاہتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے اصل حکمران آزادی مارچ کے اس ریلے کو کیسے اور کیونکر روک پاتے ہیں اور اس دراندازی کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا حکمت عملی اپناتے ہیں کیونکہ مولانا کے جیالے سرپر کفن باندھ کر نکلے ہیں اور مرنے مارنے کے لئے تیار ہیں۔
ماضی کے جھروکوں سے جھانکیں تو لال مسجد والا واقعہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں تازہ ہے اور ہماری فوج کی لال مسجد پر کی گئی گولہ باری بھی لال مسجد کے طلبہ اور طالبات کا کچھ نہیں بگاڑ سکی اور اسلام آباد کی سرزمین پر آج بھی لال مسجد پوری قوت اور طاقت کے ساتھ اپنے معاملات میں مصروف ہے۔ آج سیاسی تدبر کی بہت بڑی آزمائش ہے کہ کراچی، بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے عوام فوج کی مداخلت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور فوج عمران خان کی حکومت کی سپورٹ میں بیان تو دے رہی ہے مگر کمزور معیشت کے آگے بے بس ہے کہ فوج کے اخراجات کا معاملہ بھی سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے۔
آخر میں یہی دعا ہے کہ جو بھی ہو اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔ یہ وہی آخری الفاظ ہیں جو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے منہ سے اس وقت ادا ہوئے تھے جب انہیں راولپنڈی میں خون میں نہلا دیا گیا تھا۔ پاکستان کے قائم کرنے والے ہی قائم نہ رہے۔ ہم نے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ تو لگا دیا مگر اس کے ساتھ ساتھ قیام پاکستان کے ذمہ داروں کو یکے بعد دیگرے منوں مٹی تلے نہایت تعظیم سے دفن کردیا اور ان کی تصاویر کو اپنی دیواروں پر سجا کر پاکستان کے جذباتی عوام کو ٹھنڈا کردیا۔ یاد رہے کہ جو کچھ ہم نے کیا اس کا خمیازہ تو آج نہیں تو کل ہمیں بھگتنا ہوگا اور مکافات عمل کا سامنا ہمیں کرنا ہوگا۔ اور ڈر یہی ہے کہ نہ جانے اللہ کا انصاف اور غریب عوام کی فریاد کہیں ہمارے ملک کی جڑوں کو ہی نہ ہلا کر رکھ دے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں