تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 300

تُو بھی دھوکہ تیرا پیار بھی دھوکہ

مریم نواز سچ کہہ رہی ہے اور بلاول بھی۔ بلاول نے یہ بالکل سچ کہا کہ لاہور کا خاندان ہمیشہ سے سلیکٹڈ رہا ہے۔ مریم نے بالکل سچ کہا ہے کہ اب ایک اور نئے سلیکٹڈ کو تیار کیا جارہا ہے۔ عمران خان تو شروع سے سچ کہہ رہا ہے کہ دونوں خاندان ہی چور ہیں۔ عمران خان کی یہ بات بہت پرانی ہو چکی ہے اس پر عوام اب توجہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ بلاول اور مریم نے پہلی بار ایک دوسرے کے لئے سچ کہا ہے۔ بلاول کا کہنا یہ ہے کہ لاہور کا شریف خاندان شروع سے ہی سلیکٹڈ رہا۔ شریف خاندان نے قبول کرکے پہلے ہی اپنی غلطی کی معافی مانگ لی ہے۔ اس کا وہ بارہا اعتراف بھی کرچکے ہیں۔ اب بات ہے مریم کے کہنے کی جنہوں نے بلاول کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ عمران خان کے بعد اب اسٹیبلشمنٹ ایک نیا سلیکشن کی تیاری کررہی ہے جو کہ بالکل دُرست ہے۔ بات یہ ہے کہ بلاول کا خاندان اپنے سلیکشن کو جمہوریت کے پردے میں چھپا لینے میں ہمیشہ کامیاب ثابت ہوتے ہیں حالانکہ سب سے پہلے اس کی روایت ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کی۔ نجم سیٹھی اور شاہین سہبائی اور مجیب الرحمن شامی بزرگ صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی جانبداری واضح ہے۔ جناب ضیاءالدین کا شمار بھی بزرگ ترین صحافیوں میں ہوتا ہے جو ہمیشہ بے لاگ تجزیہ کرتے رہتے ہیں انہوں نے پچھلے دنوں یہ ہی بات تاریخ کے حوالے سے دہرائی کے سب سے پہلے اسٹیبلشمنٹ نے ذوالفقار علیبھٹو کو اس طرح وزیر اعظم اور وزیر خارجہ بنا کر سلیکٹ کیا اور مشرقی پاکستان کے یا بنگلہ دیش بنوانے کے بعد ہی ذوالفقار علی بھٹو کو بقایا مغربی پاکستان کا صدر اور مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کے اختیارات کے ساتھ اقتدار منتقل کردیا۔ اس طرح نئے پاکستان میں پہلی مرتبہ سلیکٹڈ صدر اور ایڈمنسٹریٹر کو وجود میں لایا گیا۔ اس کے یہ بھی تاریخ قائم ہوئی اس ہی سلیکٹڈ کو سلیکٹروں نے بغاوت کے الزام لگا کر تختہ دار تک پہنچا دیا۔ سلیکٹروں اور سلیکٹڈ کے درمیان جب بھی اختلافات بڑھے نقصان ہمیشہ سلیکٹڈ کو ہی اٹھانا پڑا۔
غلام اسحاق خان اور جنرل مرزا اسلم بیگ نے 1990ءکے انتخابات میں کامیاب ہونے والی شخصیت محترمہ بے نظیر بھٹو سے ایک معاہدے کے بعد اقتدار ان کے حوالے کیا جس میں صاحبزادہ یعقوب علی خان کو وزیر خارجہ کے ساتھ محبوب الحق کو وزیر خزانہ سلیکٹروں کی جانب سے مقرر کیا گیا۔
اس کے بعد شریف خاندان کا دور شروع ہوا جنہوں نے ضیاءالحق اور اس کے بعد کے فوجی حکمرانوں کے اوپننگ بیٹسمینوں کی حیثیت سے بے نظیر اور ان کے ساتھی سیاستدانوں کے خلاف بھرپور بیٹنگ کے مظاہرے کئے۔ شریف خاندان نے بعد میں اس کا ازالہ اس طرح کیا جب ان کا مقابلہ سلیکٹروں سے شروع ہوا تو انہوں نے بھرپور انداز میں ان کا مقابلہ کیا اور ان کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ ایک موقع پر برملا اظہار کیا کہ میں کسی سے ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔ انہوں نے براہ راست سلیکٹروں کو للکارا، یوں تاریخ میں پہلی بار سلیکٹروں سے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے ہو گئے اور ثابت کیا ”بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی“ اور ممولہ شہباز سے بھڑھ گیا۔ یوں خود تو ڈوبے صنم ساتھ سلیکٹروں یعنی غلام اسحاق خان کو بھی لے ڈوبے۔ بعد میں سلیکٹروں نے اپنے دو سلیکٹڈ ٹیموں کے درمیان میچ کروانا شروع کردیا۔ کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے حق میں میچ انجینئر کیا جاتا کبھی شریف خاندان کے حق میں۔ شریف خاندان کی یہ خصوصیت رہتی کہ وہ جاتے جاتے سلیکٹروں کو نقصان ضرور پہنچا دیتے جس کا خمیازہ وہ زیادہ بھگتتے۔ اس مقابلے میں محترمہ بے نظیر ہر بار عوام کی تائید سے برسر اقتدار آتی رہیں انہی کے گراﺅنڈ میں ان کی مرضی کے مطابق کھیلنے کے باوجود سلیکٹروں کے ہاتھوں کیچ آﺅٹ ہو کر جب بھی میدان سے باہر جاتیں تو وہ شریف خاندان کی طرح تمام راستے بند کرکے نہیں جاتیں جب بھی سلیکٹروں کو احساس ہوتا کہ محترمہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو وہ محترمہ سے ہی ڈیل کرنے کی کوشش کرتے۔ شریف خاندان کے مقابلے میں فوقیت دیتے۔ اس طرح دونوں فریق یعنی مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کو ٹیسٹ میچ میں دو اننگ کے بجائے پہلی باری میں فارغ ہونا پڑتا۔ یعنی دونوں صرف ون ڈے میچ کے لئے ہی میدان میں اتارے جاتے۔ باقی ٹیسٹ میچ بلکہ پوری پوری سیریز سلیکٹر خود ہی کھیلنے کی
کوشش کرتے اور جب بھی بیرونی حریفوں کا دباﺅ زیادہ بڑھ جاتا وہ کچھ عرصے کے لئے اس ہی طرح کے ون ڈے میچ کروا کر ان دو ٹیموں کو بھی موقع فراہم کرتے۔ یہ سلسلہ آصف زرداری کے سیاسی میدان میں آنے تک جاری رہا۔ اس طرح پہلی بار سانحہ بے نظیر بھٹو کے بعد کے حالات کے دباﺅ کے باعث جب آصف علی زرداری میدان سیاست میں اپنے کمالات دکھانے کا مواقع حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جس کی وجہ سے ان کو مفاہمت کا بادشاہ سمجھا جانے لگا۔ اس ہی مفاہمت کی بدولت وہ وصیت دریافت کرنے میں کامیابی حاصل کرکے پیپلزپارٹی پر بلاشرکت غیرے حاکمیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اس کے بعد شریف خاندان کو انتخابات میں شرکت پر آمادہ کرکے اپنے قصر صدارت تک پہنچنے کا راستہ دریافت کیا۔ اشفاق پرویز کیانی سے مفاہمت کی بدولت پورا ٹیسٹ میچ کامیابی سے مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے اور پانچ سال تک صدارت کے مزے لوٹتے رہے ان کی مفاہمت کے فارمولہ کے ساتھ ساتھ زرداری سب پہ بھاری کا نعرہ بھی سیاستدانوں میں بہت مقبول ہوا۔ مفاہمت کا فارمولا ہمیشہ طاقتور قوتوں سے معاملات طے کرنے میں کام آتا ہے یا ان کی مفاہمت ان قوتوں سے زیادہ کام آتی جو راستے میں ان کا ساتھ دینے کی پوزیشن میں ہوں۔ وہ اپنے سے زیادہ طاقتور لوگوں سے جن میں فوجی حکمرانوں کے ساتھ سیاسی طاقتور حلقوں سے مفاہمت کے فارمولہ کو استعمال کرکے اپنا راستے بناتے چلے جانے جیسا کہ انہوں نے پہلے پنجاب میں شریف خاندان سے مفاہمت کے نام پر اپنا راستہ صاف کیا اس کے بعد سندھ میں اپنی سب سے بڑی حریف قوت الطاف حسین سے 60/40 فارمولہ کے نام پر وقت مفاہمت کی اور بعد میں الطاف حسین کو فوج کی مدد سے راستے سے ہٹایا۔ سندھ میں رہنے والے ان کے حامیوں کے ساتھ زرداری سب پر بھاری کے ہتھوڑے برسا کر ان کو کریش کرنے کی منصوبہ سازی پر کاربند رہے۔ زرداری سب پر بھاری صرف کمزوروں پر اور مفاہمت صرف طاقتور اداروں سے جس کا ثبوت موجودہ حالات سے ملتا ہے۔ پی ڈی ایم کے ساتھیوں کی کمزوری پر بھاری پڑنے کے بعد طاقتور اداروں سے مفاہمت کے بعد دوسروں کو سلیکٹڈ کہتے کہتے خود سلیکٹڈ بن گئے۔ اس طرح موجودہ حالات کا بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو متبادل وزیر اعظم کے طور پر پیش کردیا کہ عمران خان سے زیادہ اداروں کے لئے کارآمد اور فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔
عمران خان گزشتہ تین سالوں سے سلیکٹروں کی ڈائریکشن پر چلنے سے مسلسل انکار کرکے ان کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات کررہا ہے۔ ادارے مسلسل ان کو اس بات پر آمادہ کررہے ہیں کہ وہ عثمان بزدار کو تبدیل کردیں۔ عمران خان مسلسل انکار کررہے ہیں۔ ادارے پیپلزپارٹی پر ہلکا ہاتھ رکھنے کی تاکید کررہے ہیں مگر عمران خان مسلسل انکار کررہے ہیں۔ ادارے پیپلزپارٹی کو پہلے ہی سندھ میں مکمل واک اوور دے چکے ہیں اور مقدمات میں مسلسل رعایت دے رہے ہیں۔ اب ان کے نمائندے کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بھی ان ہی اداروں کے تعاون سے بنوا چکے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مریم نواز ان پر الزام لگاتی رہی ہیں کہ ان کا نمائندہ باپ کے تعاون سے ہی سینٹ میں اپوزیشن لیڈر سلیکٹ ہونے میں کامیاب ہوا۔ بات مریم نواز کی بھی سچی ہے۔ مریم نواز کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا ہے کہ جمہوریت کی آڑ میں جو کھیل پیپلزپارٹی ایک طویل ۴دت سے کھیلتی رہی اب سب کے سامنے اس کا چہرہ کھل کر سامنے آگیا۔ ایک علاقائی سوچ اور فکر رکھنے والی پارٹی جو اپنے آپ کو وفاق کی پارٹی بنا کر مرکز میں اپنا مختلف چہرہ دکھا کر اپنی علاقائی اور متعصب چہرے کو چھپائے ہوئے تھی اب کھل کر سب کے سامنے آگئی ہے۔ اس میں مریم سمیت بلاول اور عمران کے سچ نے بیچ چوراہے پر بھانڈہ پھوڑ دیا۔
”تو بھی دھوکہ، تیرا پیار بھی دھوکہ“

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں