بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 322

جعلی جمہوری چیمپئن

موجودہ وزیر اعظم عمران خان کا شکریہ کہ جنہوں نے تمام جعلی جمہوریت کے دعویداروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا۔ جہاں وہ اپنی خفت مٹانے کے لئے جمع بھی ہوئے اور اپنی عزت بچانے کے لئے مختلف بیانات بھی داغ رہے ہیں جب کہ پورے پاکستان کی عوام یہ جانتی ہے کہ یہ کس درجہ کے جھوٹے، مکار، حرص کا شکار اور ظالم لوگ ہیں جنہیں عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ انہیں مال اکٹھا کرنے کا جنون ہے اور ان سب پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی لعنت ہے کہ جنہوں نے غریبوں کے مال سے اپنے پیٹ کا جہنم بھرا اور اپنی اولادوں کو حرام کی دولت سے مالا مال کردیا۔
درحقیقت یہ وہ غریب، مسکین اور قلاش لوگ ہیں جن کے پاس مال و متاع تو بہت ہے مگر یہ اخلاق، احساس اور خوف و خدا سے محروم کردیئے گئے ہیں۔ ان میں اتنا شعور بھی نہیں کہ یہ سمجھ سکیں کہ انہوں نے اپنے ادوار میں کیا غلطیاں اور خطائیں کی ہیں یا اب تک کررہے ہیں؟ یہ تمام شعبدے باز جو آج ایک صفحہ پر اکھٹے نظر آرہے ہیں اور جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں۔ جمہوریت کی روح تک سے واقف نہیں۔ یہ اور ان کے حواری تمام کے تمام پیراشوٹرز ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد جو تحریک پاکستان کے بانی اور اصل وارث تھے وہ اپنے ساتھ جو بھی جمہوریت پسند لائے وہ سب کے سب ان بیوروکریٹس اور فوجی جرنلز کی سازشوں کی نذر ہو گئے جنہیں انگریزوں نے تربیت دی تھی اور جن کے نزدیک اسلام اور پاکستان صرف اور صرف ایک خوبصورت نعرہ کی صورت میں موجود تھا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو آج تک صرف یہ عزت دی گئی کہ ان کی تصاویر کے سائے میں ہر وہ گندہ کام سر انجام دیا گیا جو ان کالی بھیڑوں اور فرنگیوں کے ایجنٹوں کے مفاد میں تھا۔ یوں چند وڈیروں، ملاﺅں، جاگیرداروں اور خانزادوں کے ساتھ مل کر پاکستان کو ہائی جیک کر لیا گیا۔ قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح ہوں، لیاقت علی خان ہوں یا مشرقی پاکستان کے حقیقی سیاسی اور جمہوری رہنما سب کو یا تو راستے سے ہٹا دیا گیا یا پھر ملک سے بھگا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ ان کی حب الوطنی بنی۔ یوں جو اصل حب الوطن اور پاکستانی تھے وہ تو ملیا میٹ ہو گئے اور وہ جن کے آباﺅ اجداد پاکستان کے مخالف تھے پاکستان کے حکمران بن بیٹھے۔ جیسے کہ میں نے ابتداءمیں لکھا کہ یہ سب پیراشوٹرز ہیں اور سب کے سب فوجی ٹینکوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آئے او رپھر اچانک نظریاتی بن بیٹھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے ذریعہ ملک کو دولخت کرایا گیا جو جنرل ایوب خان کا منہ بولا بیٹھا تھا۔ پھر نواز شریف نے جنرل ضیاءالحق کو اپنا روحانی باپ بنا لیا اور یوں وہ ملک کے وزیر اعظم بن بیٹھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی انہی وردی والوں سے ڈیلز کرتی رہیں اور یوں اپنے انجام کو پہنچ گئیں۔ موجودہ سیٹ اپ میں عمران خان وہی کردار ادا کررہا ہے جو ماضی کے جمہوری ڈاکوﺅں نے کیا۔ عرصہ دراز تک آمناً و صدقتاً کہتے رہے اور پھر اچانک نظریاتی بن گئے۔ اب انتظار ہے کہ کب عمران خان اپنے جنونی فیز سے نظریاتی فیز میں داخل ہوتے ہیں۔
اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو یہ کاغذی شیر اے پی سی بلائیں یا اپنے پسندیدہ چینلز اور اپنے لے پالک اینکرز کے ساتھ جیسے چاہیں شو کرلیں۔ اسٹیبلشمنٹ ان کی اوقات جانتی ہے۔ وہ بھی جانتی ہے کہ یہ سب کتنے پانی میں ہیں، ان سب کی کرپشن کی فائلیں فوجی بیرکوں میں موجود ہیں۔ کاش کہ یہ اپنے قول کے سچے اور اپنے عمل کے پکے ہوتے تو آج عوام پاکستان کی روڈ پر کٹ مر رہی ہوتی اور فوج کو بیرکوں میں واپس جانا پڑتا مگر ہوا یوں کہ فوج نے تو اپنی چھاﺅنیوں اور اپنے اداروں کو اس پروفیشنل طریقہ سے چلایا کہ پاکستان آرڈیننس فیکٹری ہو یا نیوی ہو یا ایئر فورس، دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے چلے گئے۔ اپنی تعمیر شدہ سوسائیٹیوں میں تمام مراعات دے دیں۔ دوسری جانب سول اور جمہوریت کے چیمپئن صرف اور صرف مال بٹورتے رہے اور کراچی سے لاڑکانہ اور بلوچستان سے سرحد تک پاکستان کے عوام سروں تک مسائل میں ڈوب چکے ہیں اور مائیں اپنے بچوں کو اپنے دامن میں چھپانے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں اور ان درندوں نے اور ان کے کارندوں نے معصوم بچوں اور بچیوں کی عزتیں تار تار کردی ہیں یعنی ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے بعد ان کی عزتوں کو بھی سربازار تاراج کرکے رکھ دیا۔ مگر عوام خاموش ہے اور بھٹک رہی ہے۔ عمران خان کی صورت میں پر امید ہے کہ شاید وہ کچھ کرشمہ دکھا دیں مگر حقیقت یہی ہے کہ وہ بھی اسکرپٹ سے ہٹ کر کچھ نہیں کر سکتے۔ کاش کہ اسکرپٹ لکھنے والے اب عوام کے مسائل پر توجہ دے دیں۔ کراچی کے عوام کی دادرسی کردیں۔ سندھ کے غریب عوام کے دکھوں کا مداوا کردیں۔ بلوچیوں کو ان کے حقوق مل جائیں اور سرحد اور پنجاب سے غربت و افلاس و کرپشن کا خاتمہ ہو سکے وگرنہ تو پاکستان، نا پاکستان تو بن چکا ہے، اب اس سے آگے تو لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ جاتے ہیں کہ اللہ رب العزت کی لاٹھی بے آواز ہے اور اس کی پکڑ بہت سخت ہے۔ جس سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔ خواہ وہ جمہوری لٹیرے ہوں، فوجی جنرل، بیوروکریٹس اور مولوی جو اس ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہے اور پھر وہ عوام جو ظلم تو سہہ رہے ہیں مگر ظلم کے خلاف جہاد سے خوفزدہ ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں