جیسی رعایا ویسے حکمران 280

جھک کر چلو حیات بڑی مختصر سی ہے

موت! حیات مستعار کے سفر کا وہ باب ہے جوکاتب ازل نے انسان کی تقدیر میں روزاوّل ہی سے لکھ دیا ہے ۔ حیات و ممات کے اس سفر میں ہر ذی روح جو دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن ربّ کے حکم پراپنے پیاروں کو ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے کر یہاں سے جانا ہے، اور موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گا مگریہ دل ایسا ناسمجھ اور نادان ہے کہ زندگی کی رنگینیوں میں کھو کر موت کی حقیقت ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔ دوسری طرف خالق کائنات کے کھیل بھی عجیب اور نرالے ہیں ایک طرف اس نے ہمارے دلوں میںاپنے پیاروں کے لئے پیار،محبت، چاہت اور مروت جیسا نازک احساس رکھا ہے تودوسری طرف ان پیاروں سے عارضی یا دائمی جدائی جیسی کڑی آزمائش بھی ہے جسے صبر و رضا کے ساتھ برداشت کرنے کے لئے آسمان جتنا بلند حوصلہ اور پہاڑ جیسا مضبوط کلیجہ چاہیے جو اللہ تعالیٰ کے خاص کرم کے بغیر مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔ انسان بہت ہی بے بس اور لاچار ہے ، یہ قدرت کے سامنے نہ تو اکڑ سکتا ہے اور نہ ہی زبردستی اس سے اپنی کوئی بات منواسکتا ہے ، یہ اگر کچھ کر سکتا ہے تو فقط اپنی لاچاری اور بیچارگی کا ماتم کر سکتا ہے۔ 3 دسمبر 2020ءجمعرات کا دن میرے پورے خاندان اور والدین کے لئے کڑی آزمائش کا دن تھا جب میرے بڑے بھائی رانا شہاب الدین اٹھاون برس کی عمر میں میری نظروں کے سامنے اچانک اس جہان فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کوچ کر گئے۔ اور جاتے ہوئے اپنے پیچھے آنسو¶ں کا سیلاب، آہوں اور سسکیوں کا طوفان چھوڑ گئے۔
ان کی وفات سے آج تک شاید ہی کوئی ایسا دن یا لمحہ گزرا ہو جب ان کی یاد میرے شامل حال نہ رہی ہو۔ جہاں ان کی عدم موجودگی کا احساس اکثر رلاتا ہے وہاںاپنی آنکھوں کے سامنے منوں مٹی تلے دفن ہوتے دیکھنے کے باوجود آج بھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کہ وہ زندہ ہیں اور ابھی کچھ دیر میں آکر آواز دیں گے ۔ مجھے فخر ہے کہ میرے بڑے بھائی ایک باکردار،اصول پرست،محنتی،ہمدرد اورسچے ،کھرے انسان تھے ۔ نماز پنجگانہ کے پابند اور کثرت درود شریف کے عادی تھے۔ میں نے جب ان کی میت کو اکیلے قبر میں اترتے دیکھا تو مجھے احساس ہو کہ ہمارے حقیقی ساتھی بس ہمارے اعمال ہوتے ہیں جو یا تو ہماری بخشش کا سبب بن جاتے ہیں یا پھر ہماری بربادی کا نوحہ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ زندگی بہت مختصر سی ہے، ہماری سانسیں اور ہماری صلاحیتیں بھی محدود ہیں، محدودیت کے اس دائرے میں رہتے ہوئے ہمیں لامحدود خواہشوں کے قلعے تعمیر کرنے کی حماقت نہیں کرنی چاہیے ، ہمارے کندھوں پر خواہشوں کا اتنا بوجھ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنے اصل مقصد سے ہی پیچھے ہٹ جائیں، اور ہمیں یہ یاد ہی نہ رہے ہمارا اصل مقصد بندگی، انسانیت کی خدمت اور خود کو سنوارنا، بہتر بنانا اور اس دار الامتحان سے کامران و کامیاب لوٹنا ہے۔
خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان عظیم ہے کہ ”موت کو یاد کرو اور قبروں کی زیارت کیا کرو تاکہ تمہیں زندگی کی بے مائیگی اور بے رخی کا احساس ہو“۔ جلد یا بدیر ہم بھی قبر کے اندھیرے گڑھے میں دھکیل دیئے جائیں گے ۔ حقیقت یہی ہے کہ سب نے جانا ہے ، سبق یہ ہے کہ ہم نے کیا تیاری کی ہے ، ہمارا ہر بڑھتا قدم موت کی طرف اور گزرتا سانس ہمیں زندگی کے خاتمے کی طرف لیکر جاتا ہے ۔ کوئی بادشاہ ہے یا غلام، کوئی کارخانہ دار ہے یا تاجر یا ملازم، کوئی طاقتور ہے یا کمزور سب نے خالی ہاتھ جانا ہے ۔ کوئی شان و شوکت، جاہ و جلال، دنیاوی عظمت، بڑا مرتبہ، عہدہ، تعلقات کسی کام نہیں آئیں گے ، سب کو ایک چارپائی اسے اٹھانے والے زندہ لوگوں اور قبر کے لیے تھوڑی سی جگہ کی ضرورت پیش آنی ہے ۔ ہر انسان نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے ، روز محشر کسی کی ذرہ برابر چیز بھی پوشیدہ نہیں رکھی جائے گی اور نہ ہی اس دن کسی جان پر ظلم ہو گا، اس دن ہمارے اعضاءہی گواہی دیں گے کہ ہم دنیا میں کیا کرتے رہے ہیں۔ ہمیں اپنے پیاروں کے لیے کثرت سے دعائے مغفرت کرنا چاہیے جو کہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے، باری تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے ،اور ہمیں اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے دنیا میں نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے۔
کہتا ہوں اک بات بڑی مختصر سی ہے
جھک کر چلو حیات بڑی مختصر سی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں