بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 334

سیکولر بھارت اور مسلمان پاکستان

قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ایک روز بھارت کا مسلمان یہ جان لے گا کہ مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن حاصل کرنے کی تحریک کیوں ضروری تھی اور آج جناح صاحب کی کہی ہوئی بات لفظ بہ لفظ درست ثابت ہو رہی ہے۔ نظریہ کی بنیاد پر دو ملک بنے۔ اسرائیل اور پاکستان۔ اسرائیل تو دنیا بھر کے اسرائیلوں کے لئے ایک جاہ پناہ کا درجہ رکھتا ہے جب کہ پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد اپنی حیثیت نہ منوا سکا۔ ہاں اگر بھارت سے علیحدہ ہونے کے بعد پاکستان صرف مسمانوں کا ملک رہتا تو شاید کشمیر پر، مسلمانوں پر بری نگاہ ڈالنے والے ہزار بار سوچتے مگر پاکستان اپنے قیام کے بعد تو ہائی جیک ہو گیا۔ پہلے ہم نے بنگالی مسلمانوں کو تحقیر کے ساتھ خود سے الگ کیا۔ اس وقت ہم یہ بھول گئے کہ پاکستان تمام مسلمانوں کا ترجمان ہے۔ یہ حقیقت ہے اور چشم فلک نے دیکھا کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کئے تو دنیا بھر کے مسلمان ملکوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور غیر مسلمانوں نے اسے ”اسلامک بم“ کا نام دیا تھا۔ دنیا کے پاکستان سے خائف ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے مگر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے والے جب کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر چپ سادھ لیں اور ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف لڑنے کے بجائے کشمیریوں سے پیٹھ موڑ لیں تو دنیا کو یہی پیغام ملتا ہے کہ پاکستان مسلمانوں سے اظہار یکجہتی نہیں بلکہ اپنے مفاد کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کا کوئی نہ تو سر ہے نہ پیر۔ پاکستان بننے کے بعد پہلے ہم بنگالی اور غیر بنگالی کے بخار میں مبتلا ہوئے۔ پاکستان کے آدھے حصہ پر آباد بنگالیوں کو بندوق کی نوک پر اپنا حکم ماننے پر مجبور کیا مگر جب یہ یقین ہو گیا کہ یہ مر مٹیں گے مگر اصولوں پر سودے بازی نہیں کریں گے تو پھر انہیں اپنے مفادات کے لئے خود سے علیحدہ کردیا اور بقیہ پاکستان پر قابض ہوگئے۔ مگر ماضی سے سبق حاصل کرنے کے بجائے آج بھی اپنے ہی عوام کو زیر کرنے میں اپنی انرجی صرف کررہے ہیں۔ کبھی کراچی کے عوام کو آزادی کا نعرہ لگانے کی سزا دے رہے ہیں۔ کبھی بلوچستان کے مسلمانوں کو غدار وطن کہہ کر خون میں نہلا رہے ہیں۔ غرض کہ خود اپنے ہی ملک میں غاصب بنے اپنے ہی مسلمانوں کے حق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستانی کہلانے کے بجائے پنجابی، سندھی، بلوچی اور پختون کہلانے پر ہم فخر کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں گروپوں کی صورت میں اپنی طاقت کا مظاہرہ بحیثیت پاکستانی نہیں بلکہ زبان کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اپنے ہم زبان کے کالے کرتوتوں پر بھی چپ سادھ لیتے ہیں اور یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ”اپنا بندہ ہے“۔
کاش کہ پاکستان مسلمانوں کا مضبوط ملک اور اسلام کا قلعہ بنتا تو کیا مجال تھی کسی کی کہ وہ بھارت کے مسلمان ہوں، کشمیر کے مسلمان ہوں یا پھر فلسطین کے مسلمان ہوں، پر ظلم و جبر کا سوچ بھی سکے۔ لیکن ہم مضبوط ہونے کے باوجود اس بات کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکے کہ ہم سب کو مل جل کر، پیار اور محبت سے رہنا ہے۔ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا حق مار کر اور انہیں خون میں نہلا کر ہم کبھی فلاح نہیں پا سکیں گے۔ مگر آج ہم ایٹمی قوت ہونے کے باوجود بے بسی اور بے چارگی کا شکار ہیں اور اپنی سلامتی اور معیشت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کاش کہ ہم آج بھی سمجھ لیں کہ ہماری بقا اور سلامتی ایک پاکستانی بن کر رہنے میں ہے، نہ کہ زبان کی بنیاد پر گروہ بندی پر مبنی کمیونٹی بنا کر جینے میں۔ اللہ ہمیں ہدایت دے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں