بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 479

عاصم سلیم باجوہ، مجرم یا معصوم

عاصم سلیم باجوہ جو مشرف دور سے اُبھرتے ہوئے ستارے کی مانند نظر آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے حکام اعلیٰ کے لئے نہایت اہم ہوتے چلے گئے۔ پرویز مشرف کے بعد جتنے بھی جنرل آئے سب ہی نے عاصم سلیم باجوہ پر اپنی عنایتوں کے انبار لگا دیئے۔ محترم عاصم سلیم باجوہ بھی نہایت سمجھدار یا یوں کہئے کہ نہایت شاطر شخصیت ہیں۔ جنہیں یہ معلوم ہے کہ کب اور کہاں کیسے اور کیوں چال چلی جاتی ہے۔ نتیجہ وہی نکلا جس کا خدشہ تھا کہ اقتدار اور طاقت کے نشہ میں انسان بھول جاتا ہے کہ وہ رب کائنات جو دو جہانوں کا بادشاہ ہے سب کو جانتا ہے کہ کیا ظاہر ہے اور کیا باطن۔ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔ دنیا کے سامنے آپ خود کو جس قدر چاہیں پارسا ثابت کردیں مگر رب جلیل کو کسی چھوٹی سی بات پر بھی پکڑنا ہوا تو پھر دیر نہیں لگتی خصوصاً اگر کسی کی آہ لگ گئی۔ مظلوموں کی فریاد تو ویسے ہی عرش پر برق رفتاری سے جاتی ہے بس ذرا سی دیر میں کسی کی آہ لگ گئی تو سب کچھ پل بھر میں ختم ہو جاتا ہے۔ پھر خواہ طاقت ہو، دولت ہو یا عزت۔ انسان چاروں شانے چت نیچے گرتا ہے اور کوئی سنبھالنے والا نہیں ہوتا۔ حسب معمول ہمارے ملک کی روایتوں کے عین مطابق باجوہ صاحب کی اس خبر کو بھی متنازع بنا دیا گیا ہے اور مختلف تاویلیوں اور دلیلوں کے ذریعہ باجوہ صاحب کو معصوم اور نیک ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ انسان کی سوچ کا اندازہ اس کے کسی بھی چھوٹے سے عمل سے لگایا جا سکتا ہے یعنی ماضی میں باجوہ صاحب نے جو گاڑی خریدی اس کی قیمت کروڑوں میں تھی مگر جسے لاکھوں میں ثابت کرنے کی کیا وجہ تھی اور اگر ایسا کیا گیا تو پھر ان کی ذہنیت کا اندازہ لگانے کے لئے ان کی شخصیت کا یہی پہلو کافی ہے۔ وہ جو دوسروں کو احتساب کے عمل سے گزارنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے خود احتساب سے کیوں بھاگ رہے ہیں؟ ہمارے ملک کا قانون بھی عجیب ہے کہ سویلین کرپشن میں دھر لیا جائے تو احتساب اور عدالتوں کا سامنا کرے اور کوئی فوجی جنرل یا افسر کرپشن میں ملوث ہو تو اس کا کورٹ مارشل کرکے اسے گھر بھجوا دیا جائے۔ یہاں پاکستان کے قانون اور آئین میں تبدیلی لازمی ہے کہ اگر کوئی فوجی جنرل اپنی فوجی خدمات کے نتیجہ میں کرپشن میں ملوث پایا جائے تو اس کا کورٹ مارشل ہونا چاہئے مگر اگر کوئی جنرل سول سروسز سے وابستہ ہے اور سول حکومت کا عہدہ دار ہے تو اس کا کیس اور اس کی انکوائری بھی سویلین کورٹس میں ہو اور کیس احتساب عدالتوں کے سپرد کیا جا سکے۔ اگر اس معاملہ میں سول کرپشن اور فوجی کرپشن کو علیحدہ علیحدہ کرکے دیکھا گیا تو ایک روز عوام کا ہاتھ ہو گا اور فوجی جرنلوں کا گریبان۔ پھر چاہے کتنی ہی بندوقیں اور ٹینک روڈ پر ہوں، عوام کا سیلاب نہیں روک سکیں گے، اس لئے ابھی وقت ہے کہ عوام کے جذبات کو طوفان میں بدلنے سے قبل اپنا قبلہ درست کر لیا جائے اور انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں وگرنہ یہ اقربا پروری ملک کو دولخت کردے گی کہ یہ مذاق اب مزید نہیں چلے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں