بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 126

عمران خان کی بوکھلاہٹ

جوں جوں جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کا دن قریب آرہا ہے، عمران خان کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ عمران خان کی مرضی کا آرمی چیف نہ لگ سکا تو عمران خان عوام کو روڈ پر نکالیں گے اور لانگ مارچ کی کال دیں گے کیونکہ عمران خان کے خیال میں تمام کھیل فوج کے ہاتھ میں ہے اور نیوٹرل نیوٹرل نہیں بلکہ پس پردہ ان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ عمران خان کے یہ خدشات کہیں کہیں درست یوں معلوم ہوتے ہیں کہ شہباز گل کس کے اشارے پر اب تک رہائی نہ پاسکے اور عدالتوں میں کس کے اشارے پر ان کے خلاف بغاوت کے مقدمات بنائے جارہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ماہ ستمبر کے اختتام سے قبل بہت کچھ تبدیل ہو جائے گا۔ عمران خان پنجاب حکومت سے بھی محروم ہو سکتے ہیں اور ان کے اوپر نا اہلی کا کیس بھی چلایا جا سکتا ہے۔ حکومت کے تیور بھی خطرناک دکھائی دیتے ہیں کیونکہ عمران خان حکومت سے کسی بھی قسم کی کوئی بات چیت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ امریکہ کے صدر جوبائیڈن بھی عمران خان سے بات چیت نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی جانے والے آرمی چیف سے کسی قسم کے مذاکرات کا کوئی فائدہ نظر آتا ہے۔ یوں ملکی حالات مخدوش ہیں، حکومت اور اپوزیشن باہمی دست و گریباں۔ عوام سیلاب کی زد میں ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت جس قدر ممکن ہو سکے امداد فراہم کررہے ہیں مگر عمران خان ہر شہر میں سیاسی جلسہ کرکے فوج، حکومت، عدلیہ اور امریکہ پر دباﺅ بڑھائے رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں ان کی اس حکمت عملی سے وہ فارن فنڈنگ کیس پر اثر انداز ہو سکیں گے مگر لگتا ہے کہ حکومت نے کچھ سخت فیصلہ کر لئے ہیں جن کا سامنا آئندہ چند ہفتوں میں عمران خان کی جماعت کو کرنا پڑ سکتا ہے۔
عمران خان سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں نا اہل بھی کردیا گیا تب بھی پی ٹی آئی واضح اکثریت سے الیکشن جیت کر حکومت میں آئے گی اور یوں پارلیمنٹ میں برتری ہونے کے سبب وہ قوانین میں تبدیلی لا کر معاملات کو اپنے حق میں موڑ لیں گے۔ اگر وہ وزیر اعظم نہ بھی بنے تو ان کی پارٹی کا وزیر اعظم تو یقیناً ہو گا اور ملک کے تمام صوبوں میں پی ٹی آئی اکثریتی پارٹی ہوگی۔ یوں وہ بہتر انداز میں پاکستان کی بہتری کے لئے کام کر سکیں گے اور آخر کار فوج کو بھی ان سے تعاون کرنا پڑے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں