جیسی رعایا ویسے حکمران 387

ماہِ رمضان کا انعام پاکستان!

متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ تھا، ہندﺅ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر نے کے لیے ان کے مذہبی عقائد کے خلاف ایسی سازشیں تیار کرتے جوکہ مسلمانوں کی طبع پر گراں گزرتی۔برصغیر کے مسلمانوں نے ہندﺅ قوم کے خطرناک عزائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے دین و مذہب، جان و مال ، تہذیب و تمدن کی حفاظت اور آئندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی فکری اور عملی توانائیاں ایک علیحدہ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے وقف کر دیں۔بالآخر برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی رنگ لائی ، ہجری و قمری تقویم کے اعتبار سے وہ چھبیس رمضان کا دن اور ستائیس رمضان کی شب تھی جب خالق ارض و سماءاللہ ربّ العزت کے خاص فضل و کرم سے اےک آزاد خود مختار اسلامی فلاحی رےاست ”اسلامی جمہورےہ پاکستان“ کا قیام عمل میں آیا۔ رمضان کی مبارک ساعتوں میں پاکستان کا معرض وجود میں آنا درحقیقت قدرت الٰہی کا بہت بڑا انعام ،اور رمضان المبارک میں مسلمانوں کی دعاﺅں کی قبولیت، قرآن کریم کی تلاوت اور کلمہ طیبہ کی برکت تھی۔ مالک عرض وسماںاللہ عزو جل نے اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کو انتہائی زرخیز خطہ سرزمین کے علاوہ بے شمار قدرتی و سائل اور معدنیات سے نوازا۔ اورسر زمین پاکستان کی دبیز تہوں میں قیمتی دھاتیں اور غیر دھاتی معدنیات کثیر مقدار میںرکھے ۔ چاغی اور پنجاب میں کروڑوں ٹن خام لوہے کے ذخائر،زوق اور بگٹی مری کے علاقہ میں سونا چاندی ، تانبے کے وسیع ذخائر ، بلوچستان میں کرومیٹ، بارینیٹ کوارٹرائیٹ کے ذخائر، اورصوبہ بلوچستان اور سندھ میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر، اور صوبہ سندھ کے تھر میں کوئلہ کے ذخائر کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے اس خشک صحراءمیں قیمتی و نایاب چیزیں چھپاکر اہل پاکستان کو قدرتی نعمتوں سے مالا مال کیا۔ ان لا محدود خزانوں کے علاوہ خالق ارض و سماءاللہ ربّ العزت نے اہل پاکستان کو انتہائی خوبصورت خطہ سرزمین سے نوازاہے جہاں ایڈونچر سے بھرپور ٹورازم، قدرتی حسن و خوبصورتی سے مزین مقامات کے علاوہ مذہبی و تاریخی مقامات کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ سرزمین پاکستان کے قدرتی مناظر میں ساحل سمند رسے لے کر آسمان کو چھوتی برف پوش پہاڑی چوٹیاں ، خوبصورت آبشار یں، چشمے و جھرنے ، سرسبز گھنے جنگلات اور وادیاں ، خوابوں سے بھری رومان خیز جھیلیں اور وسیع و عریض دنیا کے مشہورصحرا شامل ہیں۔ اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ قیام پاکستان کی بدولت اہل پاکستان کو غلامی کے طوق سے نجات ملی جو کہ قدرت الٰہی کی انمول ترین نعمت ہے۔ مگر صد افسوس کہ ہم اہل پاکستان قےام پاکستان سے آج تک اس بحث کا شکار ہےں کہ قےام پاکستان کا مقصد کےا تھا۔ تحریک پاکستان کا اگر غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت آسانی کے ساتھ سمجھی جا سکتی ہے کہ مختلف صوبوں، علاقوں اور مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو جس قوت نے ایک متحدہ قوم بنا دیا وہ قوت اسلامی نظریہ تھا، تحریک پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کا پرزور موقف یہ تھا کہ مسلمان اپنے الگ مذہب کی بنیاد پر ایک جداگانہ قوم ہیں۔ تحریک پاکستان کی بنیاد اسلام ہے، اسلام ہی نے ہمیں قیام پاکستان کے مخالفین کے مقابلہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا تھا۔
قائد اعظم کے مشہور سلوگن ایمان، اتحاد اور تنظیم پر ہی غور کر لیں کہ ایمان کی طاقت نے ہمیں متحد کیا۔ ہم ایک قوم بنے اور ہم اپنے لئے ایک الگ علاقہ، مملکت اور وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 8 مارچ 1944ءکی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں قائد اعظم کی تقریر کا یہ مختصر ترین اقتباس دیکھیں۔ ”پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندﺅ مسلمان ہوا تھا۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے ، وطن اور نسل نہیں“۔ جن لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ قائد اعظم سیکولر ذہن رکھتے تھے اور وہ پاکستان میں سیکولر نظام لانے کے حق میں تھے، سیکولر ازم کا ڈھول بجانے والا یہ گمراہ کن ٹولہ اگر اس دور کے ہندو اخبارات میں ہندو سیاست دانوں کے بیانات پڑھ لے تو انہیں علم ہو جائے گا کہ ہندو طبقہ پاکستان کی مخالفت ہی اس وجہ سے کر رہا تھا کہ وہ پاکستان کے مطالبہ کو اسلام ازم کی ایک کڑی سمجھتے تھے۔ وہ سیکولر طبقہ جو یہ پروپیگنڈا کرتا ہے کہ پاکستان اسلام کے نفاذ کے لئے نہیں بنایا گیا تھا اور نہ ہی پاکستان کا یہ مقصد تھا کہ یہاں اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہونے والی اللہ کی آخری اور جامع کتاب قرآن کرےم کے اصولوں کے مطابق نظام حکومت قائم کیا جائے گا، شاید انہیں قائد اعظم کے درج ذیل فرمان ہی سے کچھ سمجھ آ جائے۔ ”اس حقیقت سے ہر شخص واقف ہے کہ قرآن مسلمانوں کا بنیادی اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جو معاشرت، مذہب، تجارت، عدالت، فوجی امور، دیوانی، فوجداری اور تعزیرات کے ضوابط کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے“۔ قائد اعظم نے مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بھی یاد کروایا کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ قرآن حکیم کا ایک نسخہ اپنے پاس رکھے تاکہ وہ اس سے اپنے لئے رہنمائی حاصل کر سکے۔ قائد اعظم نے بڑے واضح اور دو ٹوک انداز میں یہ بھی فرمایا تھا کہ ”پاکستان سے صرف حریت اور آزادی مراد نہیں اس سے فی الحقیقت مسلم آئیڈیاجی مراد ہے جس کا تحفظ ضروری ہے“۔ حقیقت یہ ہے کہ جس نظریہ پاکستان کی برکت سے ہم نے پاکستان حاصل کیا اسی نظریے یعنی قرآن کرےم کی اصولی ہدایات پر عمل کر کے اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے، اور پاکستان میں اسلامی نظام نافذ العمل کرکے پاکستان کو ایک بہترین اسلامی و فلاحی مملکت بنا سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں