عمران خان توجہ فرمائیے! 397

مودی، کشمیر اور ہندوستان!

5 فروری کو ہر سال پاکستانی جموں و کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں اور پچھلے ستر سال سے جاری تحریک آزادی کو دبانے پر ہندوستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ ان ستر سالوں میں تقریباً ایک لاکھ کشمیری شہید ہو چکے۔ ہزاروں خواتین کی عصمتیں پامال کی گئیں۔ چھ ماہ پہلے ہندوستانی پارلیمنٹ نے کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کرکے اسے یونین ٹریٹری کا درجہ دے دیا ہے۔ نو لاکھ ہندوستانی فوجی کشمیر کو محاصرے میں لئے ہوئے ہیں۔ وادی کا دنیا سے رابطہ منقطع ہے۔ کسی عالمی تنظیم کے نمائندے، کسی میڈیا کے نمائندے کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نظر بند ہیں۔ ہزاروں لوگوں کو عقوبت خانوں میں رکھا گیا ہے حتیٰی کہ معصوم بچوں کو پولیس گھروں سے اٹھا کر لے گئی ہے۔
عصر حاضر میں شاید اس سے بڑی انسانی حقوق کی پامالی قرعہ ارض پر نہیں ہو رہی۔ آخر نریندری مودی، امیت شاہ اور بی جے پی ہندوستان میں کرنا کیا چاہتے ہیں۔ اس کی تاریخ پر مختصر نظر ڈالتے ہیں۔
گزشتہ صدی میں جہاں برصغیر میں بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے ان میں سب سے اہم برصغیر جہاں پر مسلمان حکمران رہے اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے انگریز سامراج کا قبضہ ہوا۔ اور پھر برصغیر میں بسنے والے لوگوں نے تحریک آزادی میں اپنا لہو شامل کرکے برصغیر کو آزاد کرایا اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے نعرے نے حقیقت کا روپ دھار کر دنیا کے نقشے پر مملکت خداداد پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔ وہاں پر قیام پاکستان سے پہلے ہندوستان کی سرزمین پر دمودر اور سواکر نام کا ہندو انتہا پسند بھی نمودار ہوا اور جس نے ہندوتوا کا ذکر پہلی دفعہ 1923ءمیں اپنے سب سے پہلے چھپنے والے کتابچے میں کیا۔ یہ درست ہے کہ ہندو مذہب کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے لیکن مودی سرکار جس ہندوتوا کا ڈھول پیٹ رہی ہے اس کی عمر 100 سال بھی نہیں ہے۔ ہندو مذہب اور ہندوتوا دو مختلف چیزیں ہیں۔ ان کے درمیان بنیادی فرق کو جاننا ضروری ہے۔ ’ہندو ایک مذہب“ ہے۔ جب کہ ”ہندوتوا“ ایک سیاسی تحریک ہے۔ جس کا آغاز ہٹلر کی نازی پارٹی کے ساتھ اور باہمی تعاون سے ہوا۔ ہندو مذہب کا کوئی بانی نہیں تھا۔ یہ برصغیر جنوبی ایشیا میں آباد مختلف قوموں کی ثقافت اور رسومات کے امتزاج سے کئی ہزار سال میں مختلف مراحل طے کرکے یہاں تک پہنچا جب کہ ہندوتوا میں تو نسل اور علاقائی برتری کا تصور ہے۔
ہندو مذہب کی کوئی ایک کتاب نہیں ہے۔ جیسے دوسرے مذاہب کی ہیں بلکہ یہ داستانوں پر مبنی مختلف کتابوں پر مشتمل ہے۔ جو مختلف اوقات میں مختلف لوگوں نے لکھیں۔ ان میں رگ وید، سام وید، اپلنشہ، یجروید، براہمن گرنتھ اور رامائن وغیرہ شامل ہیں۔ ہندو مذہب دوسرے مذاہب کو اپنے اندر ضم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جب کہ ہندوتوا دوسرے مذاہب کو مکمل طور پر ختم کرنے کا تصور ہے جس کے مطابق ہندوستان میں ہندوﺅں کے علاوہ باقی مذاہب کے لوگ ہندو ہو جائیں یا ملک چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ یہ ایک سیاسی تحریک تھی۔ مذہبی نہیں۔ ہندو مذہب کی بنیاد تعلیم برداشت ہے جب کہ ہندوتوا کی بنیاد تعلیم عدم برداشت، نفرت، تعصب اور دوسروں کی نسل کشی ہے۔ ہندو مذہب تمام سمت اور دوسرے مذاہب سے آنے والی اچھی باتوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ وید میں لکھا ہے کہ دوسرے مذاہب کی تمام اچھی باتوں کو جذب کرکے اسے ہندو مذہب کا حصہ بنائیں۔ جب کہ ہندوتوا تو دوسرے مذاہب کی بات کو نہ سننے اور انہیں جڑ سے اکھاڑ دینے کا درس دیتا ہے۔ یہ سو فیصد فاشسٹ تصور ہے۔
ہندوتوا کے اسی تصور کو لے کر مودی سرکار نے ہندوستان جو کہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ہونے کا دعویدار تھا کو جوالا مکھی بنا دیا ہے۔
ایک طرف تو جموں و کشمیر کو فتح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں 80 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ اور وہ آزادی چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہندوستان وہاں استصواب رائے کرانے کا پابند ہے اور کشمیر کے لوگ جو فیصلہ کریں وہ ان کی مرضی و منشا پر ہے۔ جسے ہندوستان نے غصب کیا ہوا ہے۔ پاکستان سفارتی سطح پر اس کی ہر میدان میں حمایت کررہا ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دیا جائے اور 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر ہر سال منایا جاتا ہے اور پوے ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان جب سے برسر اقتدار آئے ہیں اقوام متحدہ سے لے کر پچھلے دنوں سوئٹزرلینڈ (ڈیووس) میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم میں بھرپور طریقے سے اٹھای اہے۔ اور اب دنیا کے مکتلف با اثر ممالک اس کی حمایت کررہے ہیں۔ اور ہندوستان کو ہر طرف سے شکست کا سامنا ہے۔
دوسری طرف مودی سرکار نے سی اے اے اور آر سی اے قانون پاس کیا ہے جس کی وجہ سے پورے ہندوستان میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور اس کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں بلا تخصیص مذہب تمام لوگ یک زبان ہو کر اس قانون کی مخالفت کررہے ہیں۔ مودی کی لگائی ہوئی یہ آگ ہندوستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گی۔ اور مودی ہندوستان کے لئے گوربا چوف ثابت ہوگا۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ تیسری بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ امریکہ پاکستان ہندوستان اور کشمیریوں کے درمیان ثالث بننے کے لئے تیار ہے۔ مگر مودی سرکار کسی صورت ماننے کو تیار نہیں ہے اور ان کا موقف ہے کہ یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے پاکستان اور ہندوستان میں سخت کشیدگی پائی جاتی ہے اور پچھلے کچھ سالوں میں جب سے نریندر مودی برسر اقتدار آیا ہے کئی بار جنگ کی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ جسے پاکستان نے ہر فورم پر دنیا کو آگاہ کیا ہے کہ اگر ہندوستان نے کوئی حرکت کی تو اس کو کرارا جواب دیا جائے گا۔ اور عین ممکن ہے کہ ایٹمی جنگ کا آغاز ہو جائے۔ جس میں پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آسکتی ہے۔ لہذآ دنیا کے طاقتور ممالک اس میں مداخلت کریں اور مودی کو سمجھائیں۔ لیکن یہ چائے فروش ذہنیت کا مالک کسی کی بات سننے کو تیار نہیں ہے لیکن ہندوستان کو اس سے بہت نقصان ہو رہا ہے۔ اس کی معیشت پچھلے پچاس سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ سیاحت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ امن ناپید ہو چکا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک ہندو طالبہ کہہ رہی تھی کہ ہم لوگ رات کو باہر نہیں نکل سکتے ایک خوف کی فضا ہے یعنی ہندوستان ایک غیر محفوظ ملک بن چکا ہے۔ ہندو نیشنل ازم کے تصور کو عملی جامعہ پہنانا ناممکن ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہندی ہندوستان کی سرکاری زبان نہیں ہے کیوں کہ ہندوستان آئین کے مطابق ہندو ریاست نہیں ہے۔ ہندوستان کے تمام صوبوں میں ان کی اپنی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر ساﺅتھ انڈین لوگ ہندی بالکل نہیں سمجھتے۔ وہ اپنی زبان بولتے ہیں۔ پنجاب کے لوگ پنجابی بولتے ہیں۔ مدراسی، مراٹھی، تامل، گجراتی وغیرہ بڑی زبانیں ہیں۔ ہندوستان کے کئی دوسرے صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ مودی سرکار اپنے اقدامات سے جلتی پر تیل کا کام کررہی ہے۔ ہم اقوام متحدہ اور ہندوستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دیا جائے۔ کشمیر میں کرفیو ختم کیا جائے۔ تمام لوگوں کو رہا کیا جائے۔ انٹرنیٹ سروسز بحال کی جائیں، لوگوں کی آمدورفت کو کھول جائے۔ اور دفعہ 370 اور 35A کو واپس لیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں