عمران خان توجہ فرمائیے! 357

میر شکیل الرحمن کی گرفتاری صحافت پر حملہ ہے؟

گزشتہ دنوں جنگ گروپ کے میر شکیل الرحمن کو نیب نے 54 کنال اراضی کی غیر قانونی خرید کے معاملہ میں گرفتار کیا ہے جو کہ لاہور میں اپر مال بند پر واقع ہے۔ یہ اراضی انتہائی پرکشش مقام پر ہے اور اس کی قیمت اربوں میں ہے۔ یہ پراپرٹی پوری ایک اسٹیٹ کی طرح ہے جس میں ہیلی پیڈ کی سہولت بھی میسر ہے۔ بنیادی طور پر میر شکیل الرحمان کی رہائش گاہ ہے۔ میر خلیل الرحمن سے میر شکیل الرحمن تک جنگ گروپ نے صحافتی میدان میں نہ صرف پاکستان بلکہ لندن میں بھی پر پھیلائے ہوئے ہیں۔ میر فیملی کا اثر و رسوخ دہائیوں پرانا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب جنگ لاہور کی اشاعت شروع ہوئی تو اس وقت تک یہ ایک نامور اور طاقتور ادارہ بن چکا تھا۔ ”رونامہجنگ“ سے بڑے بڑے صحافیوں کی آبیاری ہوئی۔ یہ ادارہ قابل اعتماد ذرائع ابلاغ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ میر خلیل الرحمن جو کہ ایک نفیس اور شریف النفس انسان تھے بلکہ پایہ کے صحافی تھے۔ روزنامہ جنگ کی بنیاد کراچی میں 1939ءمیں رکھی گئی۔ اور یہ پاکستان کا سب سے پرانا اور اشاعت کے اعتبار سے بہت بڑا ادارہ تھا۔ اس میں چھپنے والی خبریں، اداریے، کالم، فیچرز وغیرہ وغیرہ عوام الناس کی خصوصی توجہ کا مرکز رہتے تھے۔ لوگ جب تک جنگ اخبار پڑھ نہیں لیتے تھے ان کو چین نہیں آتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت اس کے پائے کا نوائے وقت، مشرق اور امروز کے علاوہ کوئی اور اخبار نہیں تھا۔ الیکٹرونک میڈیا میں صرف پاکستان ٹیلی ویژن تھا۔ روزنامہ جنگ میں صحافت کے بڑے بڑے عالی شان نام لکھتے تھے اور لوگ ان کو پڑھ کر علم حاصل کرتے تھے۔ بہت بڑے بڑے دانشور، شاعر اور ادیب اس سے منسلک تھے۔ روزنامہ جنگ میں چھپنے والے مضامین اور خبریں حکومتوں کو ہلا دیتے تھے۔ رائے عامہ ہموار کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کرتا تھا۔ بڑے بڑے لکھاریوں کی خواہش اور کوشش ہوتی تھی کہ وہ روزنامہ جنگ سے منسلک ہو جائیں۔ ان کے ہاں مشاہرے تو اتنے زیادہ نہیں تھے لیکن لکھنے والوں کا نام اور پہچان بڑے وسیع پیمانے پر ہو جاتی تھی۔ نیوز رپورٹنگ کرنے والے صحافی کسی بھی سرکاری افسر کے لئے خوف کی علامت تھے۔ سیاسی لوگ خوشامد کرکے اور تحائف دے کر اپنے انٹرویو کرواتے اور خبریں لگواتے تھے۔ جس سے ان کی شہرت راتوں رات آسمان پر پہنچ جاتی تھی۔ قصہ کوتاہ کہ 1985ءسے پہلے تک روزنامہ جنگ ایک موقر اخبار تھا جس کی ساکھ بہت اچھی تھی۔
جونہی پنجاب میں نواز شریف کی انٹری ہوئی تو باقی اداروں کی طرح روزنامہ جنگ بھی جانبداری کا مظاہرہ کرنے لگا کیوں کہ نواز شریف حکومت کے پاس اس وقت میڈیا میں اپنا امیج مثبت دکھانے کے لئے اس سے بڑا اخبار نہیں تھا جس کی ساکھ اور اثر و رسوخ تھا۔ نواز شریف نے جنگ گروپ کو جائز و ناجائز اتنا نوازہ کہ یہ ایک مافیا کی شکل اختیار کر گیا۔ جونہی اس کی باگ ڈور میر شکیل الرحمن کے پاس آئی وہ ایک کنگ میکر کی شکل اختیار کر گیا۔ اس کا مقام قانون سے بالاتر ہو گیا۔ نواز شریف کے دور اقتدار میں جنگ گروپ نے اتنی ترقی کی کہ بیرون ملک بھی اربوں کی جائیدادیں خرید لیں کیونکہ شکیل الرحمن قانون سے اوپر تصور کیا جاتا تھا۔ کسی سرکاری ادارے کی جرات نہیں تھی کہ ان کو ہاتھ ڈالے۔ پھر الیکٹرونک میڈیا کا دور شروع ہوا تو پرائیویٹ ٹی وی چینلز میں سب سے پہلا لائسنس جیو ٹی وی کو دیا گیا۔ جیو ٹی وی نے وہ تباہی مچائی کہ خدا پناہ۔ جو صحافی اور دانسشور کئی دہائیوں میں بھی عوام میں اتنے مقبول نہیں ہوئے تھے وہ راتوں رات بام عروج کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ نئے نئے لوگوں کو مائیک اور کیمرہ دے دیا گیا اور انہوں نے وہ من مانی صحافت کی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہی ٹی وی اینکر بھی ایک بدمعاشیا کی شکل اختیار کر گئے اور کچھ تو اپنے آپ کو حکومتوں کو گرانے کا دعویٰ بھی کرنے لگی۔ جنگ گروپ کے پرچم تلے جو صحافت 1939ءمیں شروع ہوئی تھی جس نے قیام پاکستان کے دوران مسلمانان ہند کی بھرپور ترجمانی کی تھی۔ وہ ترقی کی منزلیں طے کرتا کرتا بام عروج پر پہنچ گیا۔ اس کو دنیا بھر میں بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ دنیا کے بڑے بڑے نشریاتی ادارے اس کی خبروں کا حوالہ دیا کرتے تھے۔ جونہی شکیل الرحمان کا دور شروع ہوا اور پھر نواز شریف کی پشت پناہی ملی۔ جنگ گروپ نے دونوں ہاتھوں سے کرپشن کے بازار گرم کر دیئے۔ جیو ٹی وی کے بعد تو انہوں نے اور ان سے منسلک چند نام نہاد صحافیوں نے حکومتوں کو بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ دن رات حکومتوں کو گرانے کے دعوﺅں سے ڈرانے اور دھمکانے لگے۔ انہوں نے نہ صرف مالی کرپشن کی بلکہ اپنے صحافی ہونے کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا۔ حکومتوں سے بے شمار فوائد حاصل کئے۔ صحافی جو کہ ایک شریف النفس شخص سمجھا جاتا تھا۔ اس کو بدمعاش بنا دیا۔ معاشرہ میں صحافی کو ایک گالی کی شکل دے دی۔ صحافتی بدمعاشی کا یہ رجحان تقریباً تمام ذرائع ابلاغ کے اداروں میں سرائیت کرچکا ہے۔ لیکن اس کے روح رواں جنگ گروپ اور اس سے منسلک صحافیوں کو موردالزام ٹھہرانا غلط نہ ہوگا۔ بدمعاشی اور کرپشن کی داغ بیل جنگ گروپ نے ڈالی اور صحافت جیسے عظیم پیشے کو پراگندہ کردیا۔ آج پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ میڈیا پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ جھوٹی خبریں پھیلاتا ہے۔ حکومتوں سے اشتہاروں کے نام پر اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ہے۔
میر شکیل الرحمان نے کچھ عرصہ پہلے سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے برملا کہا تھا کہ میں ایک بزنس مین ہوں یعنی میں صحافی نہیں ہوں۔ تو جو لوگ اس کی گرفتاری کو صحافت پر حملہ کہہ رہے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اس کی گرفتاری تو پہلا قدم ہے، اصل معاملہ نتیجہ ہے جو کہ ہم پچھلے دو تین سال سے ہونے والی گرفتاریوں کا دیکھ رہے ہیں اس وقت تمام سیاسی لوگ جن پر کرپشن کے میگا اسکینڈل ہیں، ضمانت پر رہا ہو کر گل چھرے اڑا رہے ہیں۔ اور ہمارے عدالتی اور حکومتی نظام پر منہ چڑا رہے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ میر شکیل الرحمن کو کلین چٹ دے کر چند ماہ میں فارغ کر دیا جائے گا اور پھر وہ بھی سیاست دانوں کی طرح وکٹری کا نشان بناتے ہوئے مزید قوت سے اداروں پر حملہ آور ہوگا۔
بدقسمتی سے عمران خان حکومت نے بھی کسی بھی کرپٹ شخص کو ابھی تک عبرت کا نشان نہیں بنایا۔ صرف اور صرف کھوکھلے دعوے اور بڑھکیں ماری جارہی ہیں۔ جب تک با اثر کرپٹ افراد کو نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا ملک پاکستان گرداب سے نہیں نکلے گا۔ تو یہ بات درست نہیں ہے کہ شکیل الرحمن کی گرفتاری صحافت پر حملہ ہے۔ یہ شخص بزنس مین ہے، صحافی نہیں ہے، یاد رہے۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں