بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 413

کراچی کے وسائل سب کے، مگر مسائل صرف کراچی والوں کے

یہ حقیقت ہے اور اسے سب مانتے ہیں کہ کراچی پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور پاکستانی معیشت کی گاڑی کراچی کے بغیر نہیں چل سکتی۔ کراچی کی جو شان برٹش راج میں تھی وہ جس نے بھی دیکھی ہے وہ آج کراچی کو دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے۔ میٹروپول سے لے کر الفسن اسٹریٹ تک دنیا بھر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا نظر آنا اس بات کی دلیل تھا کہ یہ شہر منفر ہے۔ کراچی اور بمبئی ایک جیسا نظارہ پیش کرتا تھا مگر آج کا کراچی گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے۔ کراچی کے عوام کو گٹر کا پانی پینے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ گھروں کے نلوں میں زمانہ ہوا پانی آنا ختم ہو گیا کیونکہ بڑے بڑے ہائیڈرنٹس کے ذریعہ پانی ٹینکروں میں بھر کر بیچا جا رہا ہے یعنی کراچی کا پانی جس پر کراچی والوں کا حق ہے انہیں خریدنا پڑ رہا ہے وگرنہ گٹر کا پانی ان کا مقدر ہے۔ کراچی میں تمام قومیں آباد ہیں، پورا پاکستان ملازمت کی غرض سے کراچی آتا ہے اور کراچی سب کا پالن ہار ہے مگر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کراچی کے وسائل کی بات ہو تو پورا پاکستان حقدار ہے مگر جب کراچی کے مسائل پر بات کی جائے تو کوئی بھی قوم اردو بولنے والوں کے ساتھ کھڑی ہو کر آواز اٹھانے کے لئے تیار نہیں۔ یہی وہ معاملہ ہے کہ جس پر میں آج لکھنے بیٹھا ہوں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم آج اتنے بے حس اور اتنے خودغرض ہو چکے ہیں کہ ہم ملک کے مختلف علاقوں سے کراچی میں ملازمت کے لئے آتے ہیں مگر کھلی آنکھ سے کراچی کی تباہی بھی دیکھ رہے ہیں جہاں آج وہ شاہراہیں جو چمکتی تھیں، رات میں سڑک کے کنارے روشنیوں کی قطار اور سڑکوں کے درمیان میں درختوں کی قطاریں ایک خوبصورت منظر پیش کرتی تھی۔ یہی سب کچھ تھا جس نے کراچی کو روشنیوں کا شہر بنایا مگر پھر کراچی کو نظر لگ گئی۔ ملک کی معیشت میں 25 فیصد حصہ ڈالنے والا کراچی آج بے یارو مددگار ہے۔ کراچی کے تمام ٹیکسز کا کنٹرول سندھ حکومت کے پاس ہے۔ حتیٰ کہ میونسپلٹی کے ٹیکسز بھی سندھ حکومت وصول کررہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ شہر کے بلدیاتی کاموں پر عرصہ دراز سے توجہ اس لئے نہیں دی گئی کہ حکومت میں بیٹھے لوگ کراچی کے مقامی نہیں بلکہ اندرون سندھ سے تعلق رکھتے ہیں اور کراچی میں ان سب کے محل ڈیفنس اور کلفٹن میں ہیں، ان کی زندگی کراچی میں بسنے والے عام انسان سے یکسر مختلف ہے، ان کی مارکیٹیں علیحدہ، ان کے پارکس الگ، ان کے ریسٹورنٹس بالکل جدا، یوں ان کی اپنی کراچی میں الگ دنیا ہے۔ جس کا کراچی کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ کراچی کی نمائندہ جماعت نے جو کچھ سودے بازی کی وہ آج کراچی کے عوام بھگت رہے ہیں۔ کاش کہ کراچی کے منتخب نمائندے یوں آپس میں دست و گریباں ہو کر کراچی کے عوام کو یوں بے یارومددگار نہ چھوڑتے اور یوں سزا اٹھانے کے لئے آج کراچی کا غریب دست و گریباں ہے۔ یہ کالم لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ ہمیں احساس کرنا ہوگا ہر اس شخص کو جس کا روزگار کراچی سے وابستہ ہے۔ اس شہر کو اس کا حق ضرور دے۔ یہاں کی خوبصورتی پورے پاکستان کی خوبصورتی ہے۔ کراچی کی مضبوطی پورے ملک کی سالمیت کے لئے ضروری ہے۔ چنانچہ ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمارا تعلق خواہ اندرون سندھ سے ہو، پنجاب، سندھ یا خیبرپختونخواہ سے، ہمیں کراچی کو مل کر دوبارہ خوبصورت بنانا ہو گا کہ یہی ہمارا پالنھار ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں