بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 430

کل وطن سے وہ کر گئے پرواز….دیکھتے رہ گئے تمام حریف….آپ اب خوش رہیں جہاں بھی رہیں….الوداع اے میاں نواز شریف

ہمارے سابق وزیر اعظم نواز شریف حکومت کی تمام شرائط کو ٹھوکر مار کر نہایت شان و شوکت کے ساتھ کویتی شاہی سواری میں بیٹھ کر اپنے لندن میں واقع فلیٹ میں پہنچ چکے ہیں۔ دوسری جانب دن و رات یہ دعویٰ کرنے والے ہمارے موجودہ وزیر اعظم عمران خان ”این آر او نہیں دوں گا“ کہتے ہی رہ گئے کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ نے سب کی بولتی بند کردی۔
یہ کیسا کھیل تماشہ ہے۔ یہ کیسا گورکھ دھندا ہے اور یہ کیسا پاکستان ہے کہ جس کا یہ عدالتی نظام ہے۔ اداروں کا اتنا برا حال کہ آج کے چیف جسٹس صاحبان بھی نظام عدل کو اپنے گھر کی لونڈی بنائے بیٹھے ہیں۔ یا یوں کہئے کہ پاکستان کے محکمہ انصاف نے تماش بینوں کے اشاروں پر تھرکنے کا کام شروع کردیا ہے۔ حکومت نے بہت کوشش کی کہ نواز شریف نہ جائے مگر کوئی نہیں روک سکا بالکل اسی طرح کہ جس طرح سابق صدر جنرل پرویز مشرف بیمار ہوئے تھے، بڑے بڑے دعویٰ حکمراں جماعت کی جانب سے سامنے آئے۔ کسی نے کہا کہ جنرل مشرف گئے تو سیاست چھوڑ دیں گے، کسی نے کہا کہ ہو ہی نہیں سکتا تو کوئی بولا کہ دیکھتے ہیں کہ جنرل مشرف کیسے باہر جاتے ہیں مگر چشم فلک نے دیکھا کہ جنرل مشرف نہایت شان و شوکت سے ایک ایسی حکمران جماعت کے دور میں کہ جس کا وزیر اعظم سے لے کر ہر وزیر، ہر مشیر، جنرل مشرف کے خلاف زہر افشانی کررہا تھا، کے منہ کالک مل گئے۔ سوال ذہن میں آتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور وہ کون سی خفیہ طاقتیں ہیں کہ جو پہلے تو یہ پتلی تماشہ کھڑا کرتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ اس تماشہ کا ڈراپ سین بھی خود ہی کروا دیتی ہیں۔ نواز شریف کو روکنے میں ناکامی کے بعد موجودہ وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ ”ہمیں امید ہے کہ نواز شریف علاج مکمل ہونے کے بعد وطن واپس آجائیں گے“۔ ایک شکست خوردہ شخص کا جملہ ہے جو بے بس ہے، مگر بول نہیں سکتا۔ اس لئے کہ جو علاج کے لئے باہر گیا ہے وہ بھی انہی طاقتوں کے ذریعہ وزیر اعلیٰ پنجاب بنا اور پھر وزیر اعظم۔ مگر وقت اور حالات کو دیکھ کر اسے بھی ایک دن کہنا پڑ گیا کہ ”اب وہ نظریاتی سیاستدان ہو گیا ہے“۔
حکومت کو چاہئے تھا کہ نہ نواز شریف کو روکتی اور نہ ہی زرداری کو کیونکہ جس کے اشارے پر حکومت نے یہ سب کچھ کیا ان کا اپنا ایجنڈا ہے اور ان کے ایجنڈے کے آگے سب نعرے سب وعدے سب تقریریں دم توڑ جاتی ہیں کیونکہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ وہی ایک ادارہ ہے جو پاکستان بھر کی زمینوں کا رئیل اسٹیٹ ایجنٹ بھی ہے۔ ملک کے پانیوں کو اپنے ہی ملک کے عوام کو بیچنے والا بھی ہے۔ اپنے ہی ہم وطنوں کی اولادوں کو خون میں نہلانے والا بھی ہے اور ملک کے سیاسی نظام کو قیام پاکستان سے لے کر آج تک تہہ و بالا کرنے والا بھی ہے مگر ”بلی کے گلہ میں گھنٹی کون باندھے گا؟“۔
آج پاکستان کی سیاست اسی ایک ادارے کے گرد گھوم رہی ہے۔ وہی سیاہ و سفید کا مالک ہے کہ بندوق جس کے پاس ہے، سنی بھی اُسی کی جاتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ نواز شریف کو کئی برس عدالتوں میں گھسیٹنے کے بعد نہایت شان و شوکت سے لندن روانہ کردیا گیا اور جاتے جاتے گزارش بھی کی گئی کہ جب آپ کی صحت ٹھیک ہو جائے تو واپس ضرور آئیے گا۔ یہ آپ ہی کا ملک ہے اور یہ وہ ماں ہے جس کی چھاتی میں آج بھی آپ کو دیکھ کر دودھ اترتا ہے۔ امید ہے محترمہ مریم نواز بھی جلد اپنے والد کی تیمارداری کے لئے لندن روانہ ہو جائیں گی اور ایک روز دوبارہ اس ملک میں فاتح کی حیثیت سے وارد ہوں گی۔ وقت دور نہیں کہ آصف علی زرداری بھی اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ جانی واکر برانڈ، شہد کی بوتلوں اور زیتون کے تیل سمیت امریکہ روانہ ہو جائیں گی۔ جہاں ان کے دست راست حسین حقانی ان کے استقبال کے لئے تازہ دم ہیں۔
کاش کے عوام جان سکتی کہ قائد اعظم نے جنرل ایوب خان کو اپنے نشانہ پر کیوں لیا تھا؟ اور پھر قائد اعظم زیارت میں کیا کرتے رہے؟ پھر محترمہ فاطمہ جناح، لیاقت علی خان اور دیگر قیام پاکستان کے رہنما کس نگری میں گم ہو گئے۔ سب نے کھلی آنکھ سے دیکھا اور خاموش ہو گئے اور یہ خاموشی آج ہمارے عوام اور ہمارے ملک کو کہاں لے آئی۔ نہ جانے اور کب تک ہم خاموش رہیں گے اور یہ کٹھ پتلی تماشہ دیکھتے رہیں گے۔ نہ جانے کب ہمارے موجودہ وزیر اعظم نظریاتی ہونے کا نعرہ لگائیں گے اور پھر زنجیر پہن کر رقص کریں گے۔
آخر میں یہی دعا ہے کہ اللہ ہمارے ملک کے عوام اور ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو اور کوئی ایسا معجزہ کردے کہ ملک ٹھیک ہو جائے کیونکہ ہم عمل سے زیادہ دعاﺅں پر اور محنت سے زیادہ پیری فقیری پر تکیہ کرتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں