نئی نسل کے لئے بے حسی کا پیغام 340

کمسن بچیوں کے ساتھ زیادتیاں

سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم بحیثیت قوم کس طرف جارہے ہیں۔ ہمارا احساس کہاں مر گیا ہے۔ ان والدین کو تو چھوڑیں جن کی بچیوں کے ساتھ یہ گھناﺅنی حرکت ہو چکی، نہ جانے وہ کیوں خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں جو اس علاقہ کے اور اس محلہ کے مکین ہیں۔ کیا پولیس والوں کی بچیاں نہیں، کیا ہمارے حکمرانوں، ہمارے فوجی جرنیلوں اور ہمارے سرکاری افسران کی اولادیں نہیں۔ بچیاں تو کلیوں کی طرح معصوم ہوتی ہیں اور یہ بچیاں کبھی قصور کی زنیب کی صورت میں، کبھی موسیٰ خیل کی پھول جیسی نازیہ علی پری جیسی بچی جس کے چہرہ پر نگاہ ڈالیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ کا حسن جھلکتا نظر آئے۔ ایسی معصومیت کہ درندگی کا تصور ہی محال ہو۔ یہ بچی کچھ عرصہ پہلے لاپتہ ہوئی اور گٹر سے لاش برآمد ہوئی۔ آج تو شیطان بھی اپنے شیطان ہونے پر شرمندہ ہوتا ہوگا اور اللہ کے حضور انسان سے پناہ مانگتا ہوگا۔ زمانہ قدیم میں یہ رواج تھا کہ بچیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا اور آج شاید ہم اس دور سے بھی بدتر ہو چکے ہیں کہ آج ہم معصوم بچیوں کو، کسی کی لخت جگر کو، ان کلیوں کو، جن کو دیکھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ کی شان میں قصیدہ پڑھنے کو دل چاہے۔ رسوا کرکے گٹر میں نہ جانے کیسے پھینک دیتے ہیں۔ یقین جانیں میرا دل آج خون کے آنسو رو رہا ہے۔ پاکستان سے سات سمندر پار بیٹھا میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کہاں ہیں وہ پاکستانی جن میں اتنی تو غیرت و شرم ہو کہ جو باہر نکلیں اور ایسے بدکاروں کو سرعام زندہ جلادیں۔ نہ کیس، نہ قانون کی پکڑ۔ صرف اور صرف پکڑیں اور آگ لگا دیں۔ یقین جانیں اگر صرف چند واقعات میں لوگوں نے قانون کو ہاتھ میں لے لیا اور قانون نے اجازت دے دی کیونکہ بچیاں تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھی ہیں۔ بچیاں تو ان جج صاحبان کی بھی ہیں جو عدالتوں میں بیٹھے قانون سے کھیل رہے ہیں۔ نہ جانے ہمارے عوام اپنے اوپر یہ ظلم و جبر کب تک برداشت کرتے رہیں گے۔ کیوں نہیں کھڑے ہوتے، کسی کے گھر میں ہونے والے ماتم کی صداﺅں سے آواز کیوں نہیں ملاتے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گھروں سے باہر کیوں نہیں نکلتے۔ اس ظلم کے خلاف کب تک خاموش رہیں گے۔ خدارا گھر سے نکلیں وگرنہ ایک روز اللہ نہ کرے آپ کی بہن، بیٹی بھی یونہی گٹر سے برآمد نہ ہو۔
تمام پاکستانیوں کو اللہ کا واسطہ کہ ایسے لوگوں کا سدباب کریں، ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے محلہ کمیٹیاں بنائیں جو پولیس تھانہ تعاونہ کرے۔ اسے آگ لگا دیں جو افسران تعاون نہ کریں ان کا بائیکاٹ کریں۔ آپ مہنگائی کے بوجھ تلے تو دب کے سسک رہے ہیں، سونے پہ سہاگہ یہ کہ آج آپ کے بچے بھی محفوظ نہیں۔ خدارا یہ نہ سوچیں کہ وہ کسی اور کی بچیاں ہیں۔ ہمارے ہم وطنوں کی سب بچیاں اپنی بچیاں ہیں۔ آج مجھے شدید صدمہ ہے۔ میں تین بچیوں کا باپ ہوں اور خون کے آنسو رو پڑا ہوں۔ میرے دل میں آج بے حد تکلیف ہے، میں شرمندہ ہوں کہ میں دور کیوں ہوں۔ حقیقت یہی ہے کہ میں بھی بزدل ہوں اور اپنے ملک کو چھوڑ کر آج اپنے بچوں کے ساتھ سکون سے کینیڈا اور امریکہ کے مزے لوٹ رہا ہوں۔ مگر دل گرفتہ ہوں۔ کاش کہ میں کچھ کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ پروردگار مرنے سے پہلے جو کچھ کام مجھ سے لے سکتا ہے، لے لے۔ میں تیار ہوں۔ اپنے وطن کی معصوم کلیوں کے لئے آواز اٹھانے کے لئے۔ میرا یہ قلم لکھتا رہے گا جب تک میرے ہاتھوں میں جان ہے مگر اس کے علاوہ میں کر بھی کیا سکتا ہوں۔ مگر میرے وطن کے فوجی جوان، میرے ملک کے پولیس والے، میرے اپنے سرکاری افسران، حکمران سب کیوں خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ کیوں ایک ہو کر ان ظالموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچاتے۔ وہ کون لوگ ہیں، جو ہمیشہ ان درندوں کو بچا کر لے جاتے ہیں۔ ان درندوں کو پہچاننے کے باوجود انہیں کیوں کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔ نہ جانے کب ہم جاگیں گے۔ ایک ایک کرکے ہم سب کے گھر تک یہ آگ پہنچے گی اور گھر سب کے جلیں گے۔ اب بھی وقت ہے۔ ہوا کے دوش پہ خود کو ڈال کر خاموش تماشائی نہ بنیں۔ آگے آئیں اور آواز اٹھائیں۔ شور مچائیں کہ آپ کی آواز ملک کے ایوانوں تک پہنچ سکے اور حکمران وقت زبان خلق کو سمجھ سکیں کہ جو نقارہ خدا بھی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں