امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 212

کینیڈا: نسل پرستی یا اسلاموفوبیا

گزشتہ ہفتوں میں آپ نے کینیڈا میں اسلاموفوبیا کی ہاہا کار س±نی ہوگی۔ اس کا پس منظر کینیڈا کے شہر لندن میں ایک مسلمان خاندان کے افراد کا بہیمانہ قتل تھا۔ اس شور و غوغا میں کینیڈا کے وزیرِ اعظم بھی شامل ہو ئے، اور دیگر سیاستدان بھی۔ ستم ظریفی یہ کہ پاکستان کے اردو اور انگریزی جرائد کے کچھ ایسے صحافی بھی اس ابلاغ میں شامل ہو گئے جو ہمارے نزدییک معتبر اور محترم تو ہیں، لیکن شاید کینیڈا کے معروضی زمینی حقائق سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔یا شاید انہوں نے بھی انٹرنیٹ پر پھیلی خبروں اور شور شرابے پہ انحصار کیا۔ اس تحریر کا مقصد کچھ حقائق کو جاننا اور ان کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔
آپ کی نظر سے بھی ، اسلامو فوبیا کی اصطلاح گزرتی رہی ہوگی۔ اسے انگریزی میںIslamophobia لکھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب دراصل اسلام کا خوف ہے۔ اس تحریر میں ہم یہ بھی سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ کیا کینیڈا ، بحیثیتِ ملک و قوم ، واقعی اسلام سے شدید خوفزدہ ہے۔ یا یہ کہ اس اصطلاح کو سیاسی مفادات کے لیئے استعمال کیا جا رہا ہے؟
سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ہو گا کہ اسلاموفوبیا کی اصطلاح کہاں سے آئی، اور اس کے پھیلانے میں کون پیش پیش ہے۔ یہ اصطلاح اولاً بیسویں صدی کے اوائل میں سامنے آئی۔ یہ مشرق کے باے میں مغربی اور استعماری نظریات کی ضمن میں استعمال کی گئی۔ جب اہلِ مشرق کو انتہائی مضحکہ خیز طریقہ پر پیش کیا جاتا اور ان کی پسماندگی کو ان کے ماتھوں پر چسپاں کیا جاتا تھا۔ بیسویں صدی کے اواخر میں اورر بالخصوص 911کے بعد ان لوگوں نے اسے اور پھیلایا جو سیاسی اسلام کے نمائندے تھے۔ ا ن میں جماعتِ اسلامی اور اخوان المسلمون کے زیرِ اثر عمل پرست پیش پیش تھے۔
یہ وہی لوگ ہیں جو سالہا سال سے پاکستانی سیاست میں اپنے ہر مخالف کے لیئے ’اسلام دشمن ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ جو اب مرتد اور توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت کی اصطلاحوں میں در آئی ہے۔ اسلام کے نام پر سیاست کرنے والے عمل پرست اب اس اصطلاح کو ، اینٹی سیمیٹزم یا یہود دشمنی Antisemitism کے مقابلے میں بھی استعمال کرتے ہیں۔
اب ہم اس سوال کی طرف پلٹتے ہیں کہ، کیا کینیڈا کے لوگ اسلام سے خوفزدہ ہیں؟ آپ اس کا جواب ان حقائق میں خود تلاش کر سکتے ہیں۔ اس وقت کینیڈا میں مسلمانوں کی آبادی، کل آبادی کا تقریباً تین فی صد ہے۔ اسلام یہاں کا سب سے زیادہ تیزی سے بڑھتا ہوا مذہب ہے۔ ہندو، سکھ، بدھ اور،دیگر غیر عیسائیو ں کے مقابلے میں اسلام سب سے آگے ہے۔ گزشتہ بیس سالوں میں کینیڈا کے ہر بڑے شہر میں مساجد کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔ گزشتہ وفاقی انتخابات میں بارہ مسلمان اراکینِ پارلیمان منتخب ہوئے۔ اسی طرح یہاں کے سب سے بڑے صوبے اونٹاریومیں تین مسلمان اراکین منتخب ہوئے تھے۔ یہاں کے ایک بڑے شہر کیلگری کے میئر بھی مسلمان ہیں۔
یہاں کاروبار کے ہر شعبہ میں حجاب اور نقاب پوش مسلم خواتین کی تعدا د بڑھ رہی ہے، جس پر کہیں بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہاں صوبہ کوبک میں سرکاری ملازمتوں میں واضح مذہبی علامتیں اور لباس پہننا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس میں سب مذاہب شامل ہیں۔ اور یہ پابندی صرف مسلمانوں پر نہیں ہے۔
جہاں تک عام شہریوں کے مسلمانوں سے رویوں کا تعلق ہے تو ذہن نشین رہے کہ یہاں اکثر مدارس، کلیات، اور جامعات میں مسلمانوں کو نماز کی سہولت دی جاتی ہے۔ رمضان کے دوراں اکثر مدارس میں دوپہر کے کھانے کے وقت مسلمان بچوں کو الگ جگہ فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ دوسرے بچوں کے خوردو نوش سے متائثر نہ ہوں۔ واضح رہے کہ یہ سہولتیں یا تو دیگر مذاہب کو میسر نہیں ہیں، یا وہ انہیں استعمال نہیں کرتے۔ کینیڈا کے سرکاری ابلاغ کے ادارے سی بی سی میںپروگراموں کے مسلم پروڈیوسر شامل ہیں جو پروگراموں پر اثر انداز ہونے کا استحقاق رکھتے ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ آپ ان حقائق پر دیانت داری اور معروضیت سے غور کریں گے کہ تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ کینیڈا کے شہر ی نہ تو اسلام سے خوفزدہ ہیں، نہ اسلام دشمن ہیں۔ بلکہ وہ اپنے آئین کے تحت مسلمانوں کو وہی مذہبی آزادیاں دینے کے قائل ہیں جو یہاں کے ہر مذہب کے شہری کو حاصل ہیں۔
اگر کینیڈا ، اسلام دشمن نہیں، تو پھر مسئلہ کیا ہے اور یہ کہ یہاں بعض مختصر یا طویل وقفوں سے لندن شہر جیسے یا کوبک کی ایک مسجد میں مسلمانوں کے قتل کے سے واقعات کیوں پیش آتے ہیں۔ اس کا جواب شاید آپ نے ہماری اکثر تحریروں میں پڑھا ہو گا۔ وہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے کینیڈا میں سفید فام نسل پرستی ایک حقیقت ہے۔ اس کا اقرار کینیڈا کی بڑی عدالتیں بھی کرتی ہیں ، انسانی حقوق کے ادارے بھی، معروضی صحافی بھی اور دیانت دار عمل پرست بھی۔ یہ نسل پرستی کینیڈا کے قدامت پرست سیاسی اور سماجی طبقات میں کہیں زیادہ ہے۔
اس نسل پرستی کا سب سے بڑا نشانہ یہاں کے اولین باشندے ہیں جنہیں عام اصطلاح میںIndigenous کہتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے یہ معاملہ شدت سے ابھرا تھا جب یہاں کے ایک صوبہ میں ان باشندوں کے بچوں کی سینکڑوں بے نشان قبروں کی خبریں آئیں تھیں۔ اس کے بعد اس ظلم کا شکار یہاں کے سیا ہ فام باشندے ہیں ، جن سے یہاں کی جیلیں بھری پڑیں ہیں۔ اور جو اکثر پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت ہلاک ہوتے ہیں۔ جن کے ساتھ ملازمتوں ، تعلیم ، اور صحت کے معاملوں میں فرق روا رکھا جاتا ہے۔
ہمیں مسلمانوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی زیادتوں کی شکایت کرتے وقت اس معاشرہ کے ان سے کہیں زیادہ مظلوم طبقات کو ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا۔ بد قسمتی سے وہ مسلمان جو اسلاموفوبیا کا نعرہ لگاتے ہیں ، ان طبقات کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کے خلاف نہ تو مجموعی آواز اٹھاتے ہیں ، نہ ان کے ساتھ مظاہروں یا جلسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ صرف معدودے چند مسلمان ہی ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ جہاں تک کینیڈا کے وزیرِ اعظم کے اس اصطلاح کے استعمال کرنے کا تعلق ہے تو یاد رہے کہ اب سے پہلے ان کی کچھ ایسی تصاویر منظرِ عام پر آئیں جن میں انہوں نے اپنے چہرے پر سیاہ رنگ رنگا ہوا تھا۔ ایسا عموماً سیاہ فاموں کی تضحیک کے لیئے کیا جاتا ہے۔ اسے بلیک فیس Black Face کہتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں اعلانیہ معافی مانگنی پڑی تھی۔ لندن میں بھی اسلاموفوبیا کی اصطلاح کو مسلم ووٹوں کی مصلحت پرستی کے طور پر استعمال کرتے وقت انہوں نے کوبک کے اس قانوں کی مذمت کرنے سے انکار کیا تھا جس میں حجاب، نقاب، او دیگر مذاہب کی علامتوں کو سرکاری خدمات انجام دیتے وقت پابندی لگائی گئی۔ اس پر ، اتنی نہ بڑھا پاکیءداماں کی حکایت، والا مصرعہ شاید حقیقت کا اظہار کرے۔
کینیڈا میں مسلمانوں کے ساتھ کی گئی کوئی بھی زیادتی ناقابلِ قبول ہونا چاہیئے۔ لیکن اس کا حل ، اسلاموفوبیا اور اسلام دشمنی کا نعرہ لگانے میں نہیں ہوگا۔ ایسی کسی بھی زیادتی کو کینیڈا کے بعض طبقات میں مستحکم سفید فام نسل پرستی کے تعصب کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ اس کا حل بھی ہر مظلوم طبقے کے ساتھ مل کر اجتماعی طور پر تلاش کرنا ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں