امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 219

کینیڈا کی مردم شماری اور پاکستانی لسانی تناﺅ

گزشتہ کئی ہفتوں سے کینیڈا کی مردم شماری کے دوران پاکستانی نژاد حلقوں میں ایک لسانی تناﺅ اور بے چینی پھیلی نظر آئی۔ بالخصوص سو شل میڈیا پر اور بعض مقامی پاکستانی میڈیا پر۔ اکثر یہ اپیلیں کی جارہی تھیں کہ کینیڈا میں مقیم مختلف قومیتوں کے پاکستانی گھروں میں انگریزی کے بعد دوسری بولی والی زبانوں کے خانوں میں اردو، سندھی، پنجابی ، پشتو وغیرہ درج کریں۔ بعض قوم پرست پاکستانی حلقوں کا یہ اصرار تھا کہ ہر پاکستانی اپنی زبان اردو تحریر کرے۔
یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ کینیڈا کی مردم شماری میں حصہ لینا اور اس میں دیانت پر مبنی اعداد و شمار فراہم کرنا شہریوں کی قانونی ذمہ داری ہے۔ کینیڈا ہر پانچ سال بعد اپنے شہریوں کی گنتی کرتا ہے او ر ان کی خصوصیات سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب سے کئی سال پہلے کینیڈا میں مقیم شہریوں کی لسانی اور شناخت کا مقصد کینیڈا کی کثیر الثقافتی آبادی کے حساب سے بعض امداد فراہم کرنا ہوتا تھا۔ جس میں کتابوں کی اشاعت اور ثقافتی جلسے جلوسوس کے لیئے گرانٹ دی جاتی تھی۔ ایسا ایک باقاعدہ وزارت کے تحت ہوتا تھا، اب سے کئی سال پہلے یہ وزارت ختم کر دی گئی اور اسے ایک ڈویڑن میں بدلا گیا۔ پھر یہ ڈویڑن بھی ختم ہو گیا۔لسانیات ، قومیت ، اور ثقافت کی شناخت کا مقصد اب صرف عام معلومات حاصل کرنا اور اسے سرکاری ابلاغ کے معاملوں میں استعمال کرنا ہے۔
جب زبانوں کے بارے میں معلومات جمع ہونا شروع ہوئیں تو بعض طبقوں میں پنجابی زبان کے اعداد و شمار کے بارے میں بے چینی اور خلفشار پیدا ہوا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ برِ صغیر کے پنجابی بولنے والے، دو مختلف رسم الخط استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کے پنجابی گو افراد کا پنجابی رسم الخط شاہ مکھی، اور بھارتی پنجاب کی پنج زبان کا رسم الخط گ±ر مکھی ہے۔ مردم شماری میں رسم الخط تو نہیں پوچھا جاتا بلکہ گھر میں انگریزی یا فرانسیسی زبا ن کے بعد گھر میں بولی جانے والی دوسری زبانوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ یہ نہیں پوچھا جاتا کہ آپ کی مادری بولی کیا ہے۔پاکستان کے پنجابی نڑاد اور ثقہ قوم پرست طبقوں میں تشویش یہ تھی کہ اگر ہم اپنی زبان پنجا بی لکھیں گے تو ہم میں اور بھارتی نڑاد پنجابیوں میں کیا فرق رہے گا۔ ہم تو بھارتی سمجھے جاسکتے ہیں۔ یہ ایک غیر ضروری نفسیاتی تشویش تھی۔
کینیڈا کے ہر پاکستانی نڑاد شہری کو حق ہے کہ وہ مردم شماری کے وقت دیانت داری سے جو مناسب سمجھے وہ زبان چن لے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہاں کی سرکاری زبان اردو ہے۔ ہم جان بوجھ کر قومی زبان نہیں لکھ رہے کیونکہ ایسا لکھنا بعضوں کو سخت ذہنی خلجا ن میں مبتلا کرنے کاباعث ہوگا۔ ہم اس جھگڑے میں پاکستان ہی کو توڑ بیٹھے تھے۔
اب ہم آپ کو کینیڈا کی اب سے پانچ سال پہلے کی مردم شماری سے کچھ دلچسپ لسانی معلومات پیش کرتے ہیں۔ اس کے مطابق گنے جانے والے شہریوں میں سے دولاکھ بارہ ہزار شہریوں نے اردو کو گھر میں بولی جانے والی دوسری زبان درج کیا۔ چار لاکھ اسی ہزار لوگوں نے پنجابی کو دوسری زبان کے طور پر چنا۔ تیرہ ہزار لوگوں نے سندھی زبان درج کی۔ اٹھارہ ہزار لوگوں نے اپنی زبان پشتو لکھوائی۔ کہتے ہیں کہ کینیڈا کے بعض افغان شہری بھی اپنی زبان پشتو لکھواتے ہیں۔ یہاں لطف کی بات یہ ہے کہ صرف ایک لاکھ پچھتر ہزار لوگوں نے اپنی زبان ہند ی بتائی۔ جب کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار لوگوں نے گجراتی، نو ہزار نے مراٹھی، اور ایک لاکھ بہتر ہزار لوگوں نے ٹمل کا اندارج کیا۔
کیا اب تک کی تحریر پڑھ کرکے آپ مختلف زبان بولنے والوں کی قومی شناخت کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک قیاس آرائی ہی ہوگی۔ اس قیاس آرائی سے بچنے کے لیے کینیڈا کی مردم شماری میں آپ کے ترک شدہ وطن یا اس ملک کے بارے میں معلومات جمع کی جاتی ہیں، جہاں آپ پیدا ہوئے تھے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق یہاں اب سے پانچ سال پہلے، دولاکھ تین ہزار پاکستانی، چھہ لاکھ ستر ہزار بھارتی، انسٹھ ہزار بنگلہ دیشی، اور بارہ ہزار افغان باشندے آباد تھے۔
ہماری رائے میں مردم شمای کی ضمن میں لسانی ، ثقافتی ، اور قومیتی مباحث، وقت کا زیاں اور لا یعنیت ہیں۔ کینیڈا، مردم شماری میں بے شمار ایسی معلومات فراہم کرتا ہے جو ا?پ ایک شہری کی حیثیت میں جس طرح چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی بنیاد پر کینیڈا کے کچھ طبقوں میں تناﺅ پید ا کرنا کسی مسئلہ کو حل نہیں کرے گا۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ ابتدا ہی سےبیسیوں لسانی اور قومیتوں پر مبنی جھگڑوں میں گھر ا ہوا ہے۔ یہ پاکستانی حکومت اور وہاں کے ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ خود ہی ایک قومی اور لسانی تشخص قائم کرنے کی کوشش کرے۔ ایسا کرنے کے لیئے پہلے ہر ایک کو خود کو دل و جان سے پاکستانی شہری تسلیم کرنا ہوگا۔ ایسا کم از کم جب ہوگا جب ہر شہری خود کو پاکستان میں بلا لحاظِ رنگ ، نسل، زبان، اور عقیدے کے فرق کے، خود کو مساوی حقوق یافتہ شہری جاننے پر فخر کرے۔ بدقسمتی سے اب تک ہم اس میں ناکام رہے ہیں۔ کینیڈا ہمیں ایک حد تک مساوی حقوق دیتا ہے۔ ہمیں یہاں نئے جھگڑے شروع کر نے کے بجائے یہاں کے ہر ہر شہری کے مکمل مساوی حق کیلئے جدو جہد کرنا ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں