امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 350

”یہ نئے مزاج کا ’دور‘ ہے، یہاں فاصلے سے رہا کرو“

کسی زمانے میں بشیر بدر، مشاعروں کے ایک مقبول شاعر تھے۔ ان کی شاعری شاید اول درجہ کی تونہیں تھی لیکن عوام پر اثر کرتی تھی۔ ان کے کچھ شعر تو بہت ہی چلے، جن کو گائکوں نے گایا بھی۔ مثلاً یہ شعر کہ ،جس کے مصرعہ کو ہم نے کچھ تحریف کے ساتھ اس تحریر کا عنوان بنایا ہے:
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے، یہاں فاصلے سے رہا کرو
یہ ایک معیاری شعر تو نہیں ہے لیکن آج حسبِ حال ہے۔ اس پر ابھی گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن ان ہی کے ایک دو شعر اور ملاحظہ ہوں:
یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتا ب ہے، اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
مجھے اشتہار سی لگتی ہیں، یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سنا کرو، جو سنا نہیں وہ کہا کرو
اب ہم دوبارہ عنوان کی طرف آتے ہیں، اور شعر کے حسبِ حال ہونے کی بات کرتے ہیں۔ یہ مصرعہ ہمیں کل اس وقت یاد آیا جب ہم کسی کے گھر عید ملنے گئے تھے۔ وہاں جانے کا بھی اپوئنٹ مینٹ Appointment ملا تھا۔ ہمارا وقت پانچ سے چھہ بجے کا تھا۔ اسی طرح کا ٹائم ٹیبل ان کے بچوں اور اہلِ خانہ کا بھی تھا۔ سب کو وقفے وقفے سے ایک ایک گھنٹہ ملا تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو عید کا معانقہ تو کیا روزانہ کا مصاحفہ بھی دور کی بات تھی۔ یہ صاحبِ خان کی زیادتی نہیں بلکہ انکی مجبوری تھی۔ آج کل ہم اپنے گھر میں بھی ایک دوسرے سے دور رہتے ہیں۔ ڈرائنگ روم میں اور کھانے کی میزوں پر فاصلوں سے بیٹھتے ہیں۔ گھر سے ضروری کام سے باہر نکلنے پر بار بار ہاتھوں کو جراثیم کش محلول سے صاف کرتے ہیں۔ ڈاک کی یاپارسل کی وصولی پر اسے بھی صاف کرتے ہیں۔ یہ کوئی مرّاق نہیں بلکہ نئے دور میں زندہ رہنے کی شرائط ہیں۔
کینیڈا کے اکثر شہروں میں عام ملاقاتوں اور باہمی اختلاط پر سخت پابندیا ں ہیں۔ بعض شہروں میں ایک وقت میں پانچ سے زیادہ افراد کا یک جگہ جمعہ ہونا ممنوع ہے۔ برِ صغیر کے لوگوںکو دفعہ ایک سو چوالیس تو یاد ہوگی، جس کے ذریعہ ہنگامی حالت میں عوام کا اجتماع ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں دفعہ ایک سو چوالیس تو نہیں ہے لیکن پانچ سے زیادہ افراد کے اکٹھا ہونے پر ہر شخص کو ایک ہزار سے پانچ ہزار ڈالر تک کا جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔یہ کوئی کاغذی یا دھمکی کی کاروائی نہیں ہے اس پر عمل بھی ہورہا ہے۔
ہمارے ایک جاننے والے کے گھر میں چھ اشخاص کے جمع ہونے پر ہم سائے نے پولیس بلا لی، جنہوں نے ان چھ افراد کو سخت انتباہ کے بعد منتشر کر دیا۔ اسی طرح گشتہ ہفتہ ٹورونٹو کے ایک پارک میں ہزاروںافراد فاصلہ کی پرواہ کیئے بغیر موسم کا لطف اٹھانے پہنچے تو اس پر بہت ہنگامہ ہوا۔ شہر کے میئر اور صوبہ کے وزیرِ اعلیٰ اس پر بہت ناراض ہوئے۔ دوسرے روز بڑی تعداد میں پولیس نے پھر بڑا مجمع نہیں لگنے دیا۔
شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ایک وبا کسی شیطانی بلا کے روپ میں لوگوں کی جان کی دشمن ہوکر انسانی تعلقات اور معاملات پر اس طو ر اثر انداز ہو گی۔ ہم جیسے لوگ تو کسی وبا اور بلا کی غیر موجودگی میں بھی انسانی معاملات میں مداخلت ِ بیجا کے عادی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب جامعہ کراچی میں لڑکے اور لڑکیوں میں تین فٹ کا فاصلہ رکھنا ضرور ی تھا۔ اس وقت کے مانیٹر اور ان سب کے گرو میجر آفتا ب ہاتھوں میں گز گز بھر کی چھڑیا ں لیکر فاصلے ناپتے پھرتے تھے۔ خلاف ورزی پر تذلیل بھی ہوتی تھی اور جامعہ سے اخراج تک کی سزا بھی۔ حال ہی میں ہمیں بہت ہی افسوس ہاواکہ جب جامعہ کے ایک سابق صدر اور بی بی سی کے سابق صحافی، شفیع نقی جامعی ان زیادتیوں کی حمایت کر رہے تھے۔ وہ خود بھی تو اسلامی جمیعت طلبا کے ہی تھے۔ لیکن اب بھی بعض لوگ ان کی آزاد خیالی کے گن گاتے ہیں۔
گو معاملات کیسے بھی ہوں اور وبا انسانی معاملات پر جو بھی اثر ڈال رہی ہو، انسانی زندگی کو محفوظ رکھنے کے لیئے ہمیںکچھ عرصہ تک سختیا ں جھیلنا ہی پڑیں گی۔ اور یہ لاز م بھی ہے۔ نہ صرف اپنی حفاظت کے لیئے بلکہ دوسروں کی حفاظت کے لیئے بھی۔یہ بلا جو بھی کر رہی ہے ،وہ انسانوں کو یہ سبق بھی سکھا رہی ہے کہ انسانیت کی بنیاد ی صفت انسان کا انسان پر انحصار ہے۔ ذاتی خود غرضی انسانوں کا نہیں شاید حیوانوں کا کام ہے۔ حقیقت یہ بھی تو ہے کہ حیوان بھی تو اجتماعی زندگی گزارتے ہیں اور بارہا اپنوں کے لیئے قربانیاں دیتے ہیں۔
سو انسانو! فی زمانہ صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ یہ کائنات کا قاعدہ ہے۔ کتنی دیر لگے گی ، ابھی کہا نہیں جاسکتا۔ یہ امید رکھنا چاہیے کہ خدا کے بعد، سائنس، اور ہم سب ایک دوسرے کے مددگار ہوں۔ چلتے چلتے غالب کا ایک شعر پیش کردیں:
رنج سے خوگر ہوا ، انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہو گئیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں