کسی سے بات کیجئے! 563

خواتین کی خودمختاری

ابتدائی تعلیم سے ہی ہمیں خواتین کے حقوق اور ان کی پاسداری کے بارے میں نصابی اور اسلامی ہر طرح کی تعلیم سے روشناس کرایا جاتا رہا جس کی رو سے ہمیشہ عورت کی ایک مختلف صورتحال سامنے آئی جو کہ ہمارے اپنے گھروں اور معاشرے میں پھیلے ہوئے رویوں سے یکسر مختلف تھی۔ مطلب ہم پڑھ کچھ اور رہے تھے دیکھ کچھ اور رہے تھے اور ہماری سوچ کے زاویے یکسر مختلف سانچے میں ڈھل رہے تھے، جس میں ایک پڑھی لکھی اور اپنے پاﺅں پر کھڑی ہوئی عورت خود مختار ہوتی ہے اور یہ سوچ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی گئی اور تعلیم کے سانچے کے ساتھ ڈھلتی ہوئی اس سوچ کا ٹاکرا جب جب معاشرے کے خودساختہ مگر اٹوٹ اقدار سے ہوا تودونوں ہی میں لچک کی گنجائش کم نظر آئی شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں لڑکیوں کی شرح خواندگی پر توجہ کم دی جاتی ہے کیونکہ ہمارا فرسودہ سسٹم جانتا ہے کہ عورت پڑھ لکھ کے اسی سسٹم کیلئے چیلنج بن جاتی ہے
خواتین نے ہر دور میں اپنی آزادی کیلئے آواز اٹھائی اور اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے ہمیشہ کوششیں کیں جو کہ ہر قدم، ہر مقام پہ ناممکن حد تک مشکل ٹھہرا مگر باہمت صنفِ نازک نے ہر جگہ اپنا لوہا منوایا۔ تعلیم، معاشی اور اقتصادی ترقی میں اس وقت خواتین اپنی صنف مخالف کے شانہ بشانہ ہر قسم کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں، زمین سے لے کر آسمان تک کو سر کرنے میں عورت مرد سے کہیں بھی پیچھے نہیں بلکہ اگر اسے مواقع فراہم کئے جائیں تو وہ ایک قدم آگے ہی نکلتی ہے پیچھے نہیں رہتی۔ پھر بھی اسے کبھی ناقص العقل اور کبھی پاﺅں کی جوتی جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔
مشرق اور مغرب کی تاریخ ایسی خواتین کے حوالوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ہر قدم پہ اپنے حقوق کی جنگ لڑی۔ فاطمہ جناح، اندرا گاندھی اور بے نظیر کی مثالیں آج بھی ذہنوں میں تازہ ہیں جن کے پاس ایک vision تھا، اک خواب تھا، آزادی اور خودمختاری کا جو انہوں نے بے حاشا سختیوں کو برداشت کرکے پورا کیا مگر ہمارا معاشرتی المیہ کہ اپنے پیروں پر کھڑی ہونے والی ہستیوں کو کس طرح صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا گیا۔
پاکستان میں حقوق نسواں کی غیر انصافی تقسیم کی بنیادیں اتنی مضبوط ہیں کہ پاکستان سے ہجرت کرکے کینڈا آنے والی فیمیلیز اپنی جڑوں سے وہ رویے بمشکل ہی نکال پاتی ہیں، مردوں کے روئیے ویسے ہی سرد اور مالکانہ ہوتے ہیں، پاکستان سے کینیڈا آنے والی اکثر خواتین اپنے سب رشتے، دوستیاں اور سکھیاں پیچھے چھوڑ آتی ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک نئی جگہ پر ایڈجسٹ کرنا، ماحول میں ڈھلنا اور اپنی فیمیلیز میں مشرق اور مغرب کا حسین امتزاج پیدا کرنا انتہائی چیلنجنگ ہوتا ہے، یہاں پر عورتوں کو خودمختاری کا کسی حد تک حصہ مل تو جاتا ہے مگر مشرقی لڑکیوں کی پرورش میں جو خالصتاً تابعداری والے گن گھول کے پرورش کی جاتی ہے۔
تو ان بیچاریوں کو خود اپنے اسلامی اور کینیڈین حقوق کا ادراک ہوتے ہوئے بھی یہ اپنی زندگی میں انہیں شاز ہی بروئے کار لاتی ہیں اور پھر تنہائی، مہنگائی اور گھریلو ذمہ داریوں میں پستی ہوئی پاکستانی خواتین ایسے مسیحا کا انتظار کرتی رہتی ہیں جو ان کو کسی بھی طرح کے ریوارڈ سے فیضیاب کرسکے۔ یہ مسیحا اکثر تو معاشی ضروریات میں غرق ہو کر بیویوں اور ان کی تکالیف سے ناواقف شوہر حضرات ہوتے ہیں اور کبھی خواتین کی خودمختاری کی آرگنائزیشن جو رفاہ عامہ کے تحت خواتین کو مخلف قسم کے صحت مند پروگرامز میں شراکت کراتے ہیں تاکہ یہ کچھ سیکھ سکیں اور کبھی والینٹئیر کریں جس سے بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملتا ہے اور سب سے بڑھ کے وقت بھی اچھا گزرجاتا ہے۔
پاکستانی کمیونٹی کی خواتین نے کینیڈین سیاست میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے پاس ناموں کی لمبی لسٹ ہے جو اگر شروع کردی جائے تو ختم نہ ہو، ایسی خواتین جو اس وقت پورے کینیڈا میں کمیونٹی کی فلاح و بہبود کیلئے اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں اور اپنا آپ منوا رہی ہیں۔ کینیڈین گورنمنٹ خواتین کو برابری سے بھی سوا درجے کے حقوق عطا کرتی ہے اور خواتین کی آزادی و خودمختاری کو ہر ممکنہ حد تک یقینی بنانے کیلئے ہر وقت گورنمنٹ اور رفاہی ادارے کوشاں رہتے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پاکستانی خواتین یہاں اپنی اس گورنمنٹ کی طرف سے دی گئی آزادی اور مذہبی و شخصی آزادی کوبروئے کار لانے میں واقعی کامیاب ہیں؟ کہ تھرڈ ورلڈ سے آنے والی یہ خواتین واقعی یہاں کے معاشرے اور معیشت میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں تو اس سوال کا جواب کسی حد تک ”ہاں“ ہے مگر کیا ہماری پاکستانی کمیونٹی ان خواتین کو ہر طرح سے سپورٹ کرتی ہے۔ اس سوال کا جواب بہت پیچیدہ ہے کیونکہ یہاں اندرونِ خانہ کچھ ہوتا اور بیرون خانہ کچھ اور۔ خواتین کی آزادی کا نعرہ لگانے والی پاکستانی تنظیمیں اکثر صرف اپنا نام چمکانے کیلئے ایک منشور ضرور لاتی ہیں مگر اصل میں نہ تو انہیں خواتین کے مسائل میں کوئی دلچسبی ہوتی ہے، نہ خواتین سے ہمدردی۔ بلکہ ان نعروں کے پیچھے اکثر تمسخر اڑایا جاتا ہے، وقتی مدد شاید فراہم کردی جاتی ہو، سب نے اپنا نام جو چمکانہ ہوتا ہے اور فائلیں بھی۔ لیکن یہی لوگ باہر جا کے کمیونٹی میں کردار کشی کرتے ہیں۔
بات آتی ہے کردار کشی کی تو مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی اپنی ہی صنف کو نشانہ بنانے میں پیش پیش رہتی ہیں، ساتھ کھڑے ہونے والے کبھی خلوص دل سے ساتھ نہیں کھڑے ہوپاتے، یہ ہماری کمیونٹی کا المیہ ہے کہ ساتھ کھڑا شخص/خاتون ذرا سا منہ ادھر پھیرتا ہے تو ہم لگ جاتے ہیں اس کی برائیاں، چغلیاں کرنے۔ اور اگر خصوصاً عورت ہو تو یہ ہمارا نظریہ ہے عورتوں کی خودمختاری کو لیکر۔ کرپشن بھرے اس معاشرے میں جہاں عورت نے بہت سی بازیاں اپنے حق میں پلٹی ہیں، وہیں پر آج بھی ہر عورت بے بس ہے، اپنی صنفی نازکی کے ہاتھوں۔ کہیں بھی کسی بھی لڑکی کو جنسی طور پہ ہراساں کردیا جاتا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے ساتھ ساتھ مغرب میں چھوٹی بچیوں کو کہیں بھی ریپ کردیا جاتا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔
یر جگہ Women Empowerment کے نعرے لگنے کے باوجود بھی عورت اتنی مضبوط نہیں کہ خود اپنا دفاع کرسکے۔ کبھی یہ دفاع بیرونی عوامل سے کرنا پڑتا ہے تو کبھی مجازی خدا کے روپ میں اس پر جو ایک مرد مسلط کردیا جاتا ہے، حقیقی خدا کا ظرف تو بہت وسیع ہے، پر یہ مجازی خدا اکثر انتہائی کم ظرف ثابت ہوتے ہیں۔ اس وقت بھی کینیڈا میں ہی کتنی ایسی بیویاں ہیں جو شوہروں کی زیادتیاں صرف اس لئے برداشت کررہی ہیں کہ یہاں تنہا ہوتے ہوئے وہ نہیں چاہتیں کی فیملی خراب ہو، ٹوٹے یا اور مسائل ہوں۔
یہ وہ طبقہ ہے جو سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کبوتروں کی طرح آنکھیں بند کرکے جسمانی اور ذہنی اذیتیں برداشت کررہی ہیں۔
ان کو دیکھ کے میں سوچتی ہوں کہ آخر عورت کی ”خودمختاری“ کا مطلب کیا ہے اور اسے واقعی کہاں اپلائی کرنا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں