بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 491

اطلس و کمخواب کے بستر پہ یوں نازاں نہ ہو، اس جسم بے جان پر خالی کفن رہ جائے گا

پاکستان کے غریب عوام آج کسمپرسی کا شکار ہیں۔ سرکار کے پاس تو ملازمتیں ہیں نہیں، جو پرائیویٹ ادارے ملک کے لوگوں کی دادرسی کررہے تھے وہ بھی بند پڑے ہیں۔ امریکہ، کینیڈا اور دنیا کے دیگر ممالک میں تو حکومت اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت بھی کرتی ہے اور وقت پڑنے پر جس قدر ہو سکے مالی امداد بھی کرتی ہے۔ یہاں بھی کرونا وائرس کے سبب ادارے بند ہیں۔ مگر گراسری اسٹورز پر اشیاءکی قیمتیں آج بھی وہی ہیں جو اس کٹھن وقت سے پہلے تھیں۔ صرف چند ہفتوں میں دنیا بدل گئی۔ لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے اور اب تکلیف بڑھ رہی ہے۔ ان ممالک میں جہاں تمام سہولیات موجود ہیں مگر لوگ پریشان ہیں تو ذرا سوچئے ہمارے ملک پاکستان اور بھارت کا کیا حال ہوگا۔ وہاں کا روز کھانے کمانے والا کہاں سے اپنے بیوی، بچوں کے پیٹ کا جہنم بھرے گا۔ وہاں تو کلمہ پڑھ کر ہم مسلمان بھائیوں پر قیدحیات تنگ کر دیتے ہیں، قیمتوں میں کمی کے بجائے عوام کو لوٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ چند ہفتوں بعد ماہِ رمضان المبارک شروع ہوگا تو نہ جانے عبادت گزار سفید پوش عوام کیسے اور کیوں روزوں کی فضیلت اور برکت سے عہدا برا ہو سکیں گے۔
پاکستان سے آنے والی خبریں کچھ اچھی نہیں۔ سفید پوش لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں اور خیراتی ادارے چلا اُٹھے ہیں۔ چیزیں اُن کے کنٹرول سے باہر ہو چکی ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان اپنے مشیروں کے نرغے میں ایسے فیصلے اور اس حرکتیں کررہے ہیں کہ جو اُن کی مشکلات کو ناقابل کنٹرول بنا رہی ہیں۔ ٹائیگر فورس بنانے کے بجائے اگر وہ محلہ کمیٹیاں بنا کر مستحقین میں امداد تقسیم کردیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ اس وقت سیاسی دکانداری چمکانے کا وقت نہیں تھا۔ نہ تحریک انصاف کے لئے اور نہ ہی دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے، سب نے مل کر جس طرح دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹا ہے۔ کاش یہ سب مل کر اپنے اُن جرائم کا ازالہ کرلیتے۔
اللہ رب العزت نے تو یہ ایک موقع تمام حکمرانوں، سیاستدانوں اور فوجی جنرلوں کو دیا ہے کہ وہ غریبوں کی دادرسی کرکے اللہ کے غیض و غضب سے خود کو محفوظ بنا لیتے۔ مگر لگتا یہ ہے کہ اگر آئندہ چند روز اور حکومت نے دُرست فیصلے نہ کئے تو عوام روڈ پر ہوں گے۔ پھر نہ فوج سنبھال پائے گی اور نہ پولیس۔ بھوک انسان سے موت کا ڈر بھلا دیتی ہے۔ یہ بات حکمرانوں کو سمجھ لینی چاہئے۔ عمران خان کو سمجھنا ہو گا کہ ان کے دُشمنوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور آہستہ آہستہ بند گلی میں جارہے ہیں۔ انہیں خوابوں کی دُنیا سے باہر نکلنا ہوگا اور حقیقی معنوں میں عوام کی نچلی سطح پر خدمت کرنا ہوگی۔ اس کے لئے ٹائیگر فورس پر وقت ضائع کرنے کے بجائے محلہ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں تاکہ فوری مسئلہ کا حل نکل سکے۔ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان میں صوبہ سندھ میں بے حسی کا یہ عالم ہے کہ امداد میں ملنے والے وینٹی لیٹرز بھی حکومت کے با اثر افراد نے اپنے گھروں میں رکھ لئے ہیں تاکہ کسی بھی بُری صورتحال میں وہ یہ وینٹی لیٹرز اپنے اور اپنے خاندان کے لئے وقف کر سکیں۔ کاش کہ وہ جان سکتے کہ وینٹی لیٹرز تو ایک بہانہ ہے۔ سانسوں کی ڈور تو اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ کسی انسان کے ساتھ ایسی نا انصافی کرکے کہیں ایسا نہ ہو کہ وینٹی لیٹرز میں ہونے کے باوجود موت کا فرشتہ انہیں آ دبوچے اور وہ انسانوں پر ظلم کا الزام اپنے سینے پر سجائے کتوں کی موت مر جائیں۔
ہمیں جاننا ہو گا کہ عمل کا دارومدار نیتوں پر ہے اور اللہ کے دو نمائندے جو ہر انسان کے کاندھوں پر بیٹھے ہر لمحہ کا حساب لکھ رہے ہیں۔ تمام ای میلز روزانہ کی بنیادوں پر آسمان پر بھیج رہے ہیں اور ایک ایسے وقت میں جب اللہ رب العزت غضبناک ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کا یہ عمل انہیں کسی عذاب میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اب بھی وقت ہے ہمیں پاکستان کے غریب عوام کی دادرسی کردینی چاہئے۔ وگرنہ آنے والا وقت کہیں انہیں چھپنے کی جگہ بھی میسر نہ ہو سکے۔ یہ سبق یاد رکھیں کہ اللہ رب العزت رحمتوں کو حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ خلق خدا کی خدمت ہے۔ اگر ہم سمجھ سکیں تو۔ وگرنہ عبرتناک موت دروازے پر دستک دے رہی ہے۔
کہاں قاتل بدلتے ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتاہے، نہ اپنے دن بدلتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں