آپ بھی سب کی طرح سے افغانستان میں روز بدلتی صورت حال کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ کچھ ہمارے نیم طالب وزیرِ اعظم عمران خان کی طرح سے نتائج سے بے خبرخفیہ اور اعلانیہ افغانستان کی ”آزادی“ کا جشن منا رہے ہوں گے۔ اور کچھ کھلم کھلا، یا سر گوشیوں میں امریکہ کی مفروضہ شکستِ فاش کے افسانے بیان
کرتے، سنتے، سر دھنتے ہوں گے۔
امریکہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اس نے گزشتہ بیس سال میں اپنے مقاصد حاصل کیئے جس میں سب سے بڑا مقصد اوسامہ بن لادن کی ہلاکت تھا۔ اس کے ساتھ اس نے اس القاعدہ کو جس نے امریکہ پر براہِ راست حملہ کرکے تین ہزار امریکی مار دیئے تھے، ایسا تہس نہس کیا کہ اب دوبارہ کسی کو ایسا کرنے کی شاید جلد جرات نہ ہو سکے۔ اور اگر بعید از امکان پھر بھی ہو، تو گزشتہ بیس سال کے تجربات کے بعد امریکہ اب ان کو دور ہی سے برباد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکہ کے عوام کی اکثریت افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا پر خوش ہے۔ چند نالاں ہیں، صرف اس طریقہ کار پر جو آخر میں عمل میں لایا گیا۔ انہیں اب افغانستان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
آپ جو بھی دیکھ رہے ہوں، ہم تو افغانستان میں بلیوں کا رقص دیکھ رہے ہیں۔ یہ کوئی علامتی یا افسانوی بلی نہیں ہیں، نہ ہی یہ ایسی بلی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر آپ کا دل ان کی بلایئں لینے کو چاہے، اور آپ کی خواہش ہو کہ کاش یہ ہماری ہو جایئں۔ نہ ہی یہ وہ ہیں جو موسیقی پر مبنی ڈرامہ Cats میں بہترین انسانی کرداروں کی صورت کبھی من موہنا کبھی دل خراش رقص کرتی تھیں، اور دل سوز نغمے گاتی تھیں۔
اگر آپ کو ساقی فاروقی کی نظم ، ” خالی بورے میں زخمی بلّا “ یاد ہو تو آپ ان میں سے شاید کچھ بلیوں کو پہچان سکیں۔ آیئے آپ کو اس معرکہ آرا نظم کا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں:
”جان محمد خان سفر آسان نہیں!
دھان کے اس خالہ بورے میں جان الجھتی ہے۔ پٹ سن کی مضبوط سلاخیں دل میں گڑی ہیں
اور آنکھوں کے زرد کٹوروں میں۔چاند کے سکے چھن چھن گرتے ہیں۔اور بدن میں رات پھیلتی جاتی ہے۔
آج تمہاری ننگی پیٹھ پر آگ جلائے کون۔ انگارے دہکائے کون۔ جدو جہد کے خونیں پھول کھلائے کون؟
میرے شعلہ گر پنجوں میں جان نہیں، آج سفر آسان نہیں۔
تھوڑی دیر میں یہ پگڈنڈی، ٹوٹ کے اک گندے تالاب میں گر جائے گی۔
میں اپنے تابوت کی تہنائی سے لپٹ کر سو جاﺅں گا۔ پانی پانی ہو جاﺅں گا۔
اور تمہیں آگے جانا ہے۔۔۔ اک گہری ننید میں چلتے جانا ہے۔
اور تمہیں اس نظر نہ آنے والے بورے ۔۔ اپنے خالی بورے کی پہچان نہیں۔ جان محمد خان! سفر آسان نہیں۔“
ہوسکتا ہے کہ اس نظم کو پڑھنے کے بعد آپ کو تاشقند کی بلی نظر آئے جسے دکھا کر بھٹو صاحب نے ایوب خان کی حکومت تہہ و بالا کی تھی۔ ممکن ہے کہ آپ کو اس نظم میں وہ جان محمد خان نظر آئےں جو سالہاسے افغان بلیوں کے کبھی منہ چوم رہے تھے، کبھی انہیں بوروں میں بند کرتے تھے، کبھی آزاد کرتے تھے۔
ہم نے ایسی کچھ بلیوں کو ملاّ برادر کے روپ میں دیکھا ہے جو کبھی پاکستا ن کے کسی بورے میں بند تھے، اور اب افغانستا ں کے نائب سربراہِ مملکت بنائے گئے ہیں۔ ان میں سراج الدین حقانی بھی ہیں، جو امریکہ کو ان بھی کئی دہشت گرد حملوں میں مطلوب ہیں۔ وہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ کے طور پر مشہور ہیں۔ پاکستان پر سنگین الزام ہے کہ وہ سالہا سال ان کی مہمان نوازی کرتا رہا ہے۔ اس الزام کے نتیجہ میں پاکستان پر مختلف طرح کی بین الاقوامی پابندیا ں لگی ہوئی ہیں ، جن میں اب اور سختی ہونے کا امکان ہے۔
حقانی کو افغانستا ن میں وزیرِ داخلہ بنایا گیا ہے۔ ان میں محمد یعقوب مجاہد بھی ہیں جن کے والد اور طالبان کے اہم رہنما ملاعمرتھے۔ اور بھی ہیں جو طالبان کے اہم رہنماﺅں میں بھی شامل ہیں۔ حال ہی میں افغانستان کی بلیوں کی بوریوں کے مالک ، ایک ’جان محمد خان‘ بھی پاکستان سے افغانستان گئے تھے ، باوجودیکہ ابھی وہاں پروازیں بھی نہیں ہیں۔ ان کا ایسا والہانہ استقبال ہو ا جو کسی سربراہِ مملکت کا ہوتا ہے۔ ایسے ہی جان محمد خانوں سے خالی بورے والے زخمی بلے نے کہا تھا، ”اور تمہیں آگے جانا ہے۔۔۔ اک گہری ننید میں چلتے جانا ہے۔ “یوں لگتا ہے کہ بلیوں کو پالنے والے اب بھی کسی خوابِ خرگوش میں مست ہیں۔
افغانستان کی نو آزاد ، کچھ زخمی ، کچھ صحت مند بلیوں نے جو رقص رمایا ہے ، اس کی کی کچھ جھلکیاں یو ں ہے۔ گزشتہ اتوار کو وہاں ایک جید سلفی عالم ، شیخ ابو عبیداللہ متوکل کی سر بریدہ لاش ملی ہے۔جسے قتل کے بعد تیزاب سے مسخ کر دیا گیا تھا۔ وہ اسلامی ریاست کے حامی سمجھے جاتے تھے، جو طالبان کی شدید مخالف ہے۔وہ گزشتہ دنوں افغانستان کی ان جیلوں میں تھے جو طالبان کے حملہ میں توڑی گئی تھیں ۔ شہادتوں کے مطابق قتل والے روز طالبان نے انہیں مذاکرات کے نام پر ان کے گھر سے اٹھوایا تھا۔ ان کے ساتھ ان کے ایک قریبی ساتھی کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے جنازوں میں کابل اور کابل سے باہر ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔
چند دن پہلے طالبان نے ایک خاتون پولس اہلکار کے گھر پر چھاپہ مارا، ان پر ان کے میاں اور بچوں کے سامنے تشدد کرنے کے بعد انہیں ہلاک کر دیا۔ وہ آٹھ ماہ کی حاملہ تھیں۔ یہ صرف چند جھلکیاں ہیں ، ایسی ہی اور خبریں بھی پھیل رہی ہیں اور پھیلتی رہیں گی۔ طالبان نے تو کہا تھا کہ انہوں نے اپنی جون او ر اپنی عادت بدل لی ہے۔اور اب سخت گیر نہیں ہیں۔
جیسے جیسے وہاں بلیوں کا رقص پھیلے گا، ہم اور آپ گہر ی نیند میں یہ تماشا دیکھتے آگے بڑھتے جایئں گے۔
299