بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 297

انصاف کا دھڑن تختہ

اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں ہم نے ہمیشہ مذہب کے نام پر سیاست کی۔ آج بھی اُسی ڈگر پر گامزن ہے، ملک کا ہر فرد اپنی استطاعت کے مطابق ہیراپھیری کرتا دکھائی دیتا ہے مگر ہم مثالیں حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت عمرؓ کی دیتے نہیں تھکتے۔ موجودہ حکومت کو پورے ملک کو تبدیل کرنے آئی تھی اور نعرہ دیا ”نیا پاکستان“۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس نئے پاکستان کا منشور ”ریاست مدینہ“ کے مطابق بنانے کا اعلان کیا۔ ڈھائی سال گزر گئے حکومت کو آئے مگر کچھ بہتری نظر نہیں آتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ تین دھائیوں کا گند کیونکر چند سالوں میں صاف کیا جا سکتا ہے مگر سمت دُرست ہو تو انسان جلد یا بدیر منزل مقصود تک رسائی حاصل کرہی لیتا ہے مگر موجودہ حکومت کی سمت پر سوالیہ نشان ہے؟ ملک کا فرسودہ اور انگریزوں کے زمانے کا عدالتی نظام سب سے پہلے تبدیل ہونا چاہئے تھا۔ جس روز اعلان ہوا کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر ازسرنو تعمیر کیا جائے گا تو پھر سب سے پہلے ملک کے عدالی نظام کے لئے قانون سازی حکومت کی پہلی ترجیح ہونا چاہئے تھی مگر یہ تو نہ ہوا البتہ عدالتی نظام کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو خنجر ملک کے عدالتی نظام میں جسٹس افتخار چوہدری نے گھونپا تھا اور جس کو مزید بدترین سطح پر جسٹس ثاقب نثار نے پہنچایا وہ آج اپنے پورے رنگ جما چکا ہے اور یوں پاکستان کی عدالتیں کوٹھہ پر بیٹھی طوائفوں سے بھی بدتر کردار کے ساتھ ملک کے قانون کی دھجیاں بکھیر رہی ہیں۔ دنیا ہمارے عدالتی نظام پر ہنس رہی ہے۔ لاکھوں کیسز التواءکا شکار ہیں۔ جیلوں میں لاکھوں ایسے لوگ قید ہیں جن پر الزام ثابت نہیں ہوا مگر وہ برسوں سے جیلوں میں اپنا کیس لگنے کے منتظر ہیں اب یہ پولیس کی مرضی ہے کہ کب کس سے منہ مانگی رقم ملے اور وہ ان کیسز کو آگے بڑھائیں۔ عدالت مطلق العنان گھوڑے کی طرح جب چاہے جہاں چاہے اپنے ذاتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ”سوموٹو“ ایکشن لے لیتی ہے۔
مگر عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے والا کوئی نہیں۔ پاکستان میں عام کہاوت ہے کہ وکیل پر پیسہ ضائع کرنے کے بجائے سیدھا جج ہی خریدلو اور حقیقت میں یہ کہاوت آج سچ نظر آتی ہے۔ آج پورے پاکستان کی نظریں نور مقدم کیس پر مرکوز ہیں۔ پیسے کے بل بوتے پر ہمارے غریب پولیس والوں کو جو غربت سے تنگ ہیں، خدمت پر مامور کرلینا کچھ مشکل نہیں اور ہمارے حکمران اور امراءاس فارمولے کو اپلائی کرنے کے ہنر سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ماضی میں ایسے کئی کیسز ہوئے جو واضح شہادتوں کے ساتھ سامنے آئے مگر کہیں مظلوموں اور متاثرین کو خرید لیا گیا، کہیں دولت کی چمکار سے اپنے گناہوں پر پردہ ڈال دیا گیا تو کہیں اختیارات کا ناجائز استعمال ہوتا رہا۔ مستقبل کا تو کچھ نہیں کہہ سکتے مگر ریاست مدینہ بنانے کے لئے جن اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے اس کا اظہار تو ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کے اجڈ اور جاہل طالبان نے کردیا اور اعلان کردیا کہ وزراءکی تنخواہ عام مزدور کے برابر ہو گی۔ کیا ریاست مدینہ کا لفظ منہ سے نکالنے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان میں ہمت اور جرات تھی کہ یہ اعلان کرتے اور پھر اگلے 24 گھنٹہ وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان رہ کر دکھاتے۔ یہی جو ان کے سپورٹرز ہیں انہیں ہاتھ پاﺅں باندھ کر کسی کال کوٹھری میں ڈال آتے اور ان کی منی لانڈرنگ اور ناجائز اولادوں اور بیویوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر چل رہی ہوتیں۔
حق اور سچ تو یہی ہے کہ ہمارا معاشرہ تباہ ہو چکا ہے۔ ہم اخلاقی، معاشی، سوشلی اور مذہبی طور پر قلاش ہوچکے ہیں اور ہمارے پلے کچھ نہیں بچا سوائے تقریروں اور شوبازیوں کے۔ ہم دوسروں پر تنقید کرتے ہیں مگر ہمارے قول اور فعل میں اس قدر تضاد ہے کہ ہم نہ اس دنیا میں فلاح پاسکیں گے اور نہ اپنے آخری سفر میں سرخرو ہو سکیں گے۔ ہم جیسے کمزور انسان صرف آسمان کی جانب ہاتھ اٹھا کر دعائیں ہی کرسکتے ہیں کہ وہی ہے جو عزتوں کا رکھوالا ہے اور انصاف کا داعی بھی۔ ہمیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ سے انصاف مانگتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ ہم خود ہی شاید سچ سے بہت دور ہیں۔ اللہ ہماری مغفرت کرے اور ہم پر ہدایت کے دروازے کھول دے کہ انسان اللہ کے حکم اور رحمت کے بغیر ہدایت بھی نہیں پا سکتا۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں