بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص نے اپنے دوست کے گھر چوری کرلی اور اس کا کمبل فروخت کرکے اپنی ضرورت پوری کرلی لیکن اس کا گناہ ظاہر ہو گیا جس پر اس کو گرفتار کر لیا گیا۔ قاضی نے اس کا ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی، جس دوست کا کمبل چرایا گیا تھا جب اس کو پتا چلا کہ اس کے دوست کا ہاتھ کاٹا جائے گا تو وہ قاضی کی عدالت میں پیش ہوا اور سفارش کی کہ مہربانی کرکے اسے سزا نہ دیں اس نے میرے گھر چوری کی میں نے اس کو معاف کردیا۔ قاضی نے جواب دیا کہ تمہارے معاف کرنے سے یہ بھی سزا سے نہیں بچ سکے گا کیونکہ سزا شریعت کا حکم ہے۔ دوست نے کہا کہ اگر چوری کا مال وقف ہو تو اس پر سزا نہیں دی جا سکتی ہم جیسے درویشوں کا مال وقف ہوتا ہے ہم جیسے لوگوں نے اپنی کسی چیز کو اپنی ذاتی ملکیت نہیں سمجھا۔ قاضی نے اس دوست کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے چور کو معاف کردیا اور اسے ملامت کی کہ تو نے چوری بھی کی تو اپنے اس دوست کے گھر جس نے تجھے سزا سے بچا لیا۔ سینیٹ کے الیکشن میں جس طرح سے مختلف جماعتوں نے ایک دوسرے کے ووٹوں کی چوری کی وہ ایسا ہی ہے جیسے ایک دوست نے دوسرے کا کمبل چرایا ہو وہ بھی بابانگ دہل۔ اور قاضی سب کچھ دیکھتا رہا اور خاموش رہا۔ ہر جماعت نے جہاں موقع ملا دوسرے کے گھر چوری کی اور ایک دوسرے پر الزام لگایا۔ ووٹوں کی اس چوری کے مقابلے میں پیپلزپارٹی نمبر ون رہی جو جتنا طاقتور تھا اس نے اپنی بساط کے مطابق سر چڑھ کر کھل کر چوری کی اور سب ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اس طرح چھوٹے چور اسٹریٹ کرائم میں بھرے بازار میں اسلحہ دکھا کر لوٹ مار کرتے ہیں اس ہی طرح ایوان بالا میں نوٹ دکھا کر سب کے سامنے لوٹا گیا، فرق یہ تھا کہ لتنے والا خود بھی چوراہے پر لٹنے کے لئے آیا، کراچی کے علاوہ ملک کے ہر حصے سے اس طرح کی چوری کی آوازیں سنائیں دیں، بلوچستان میں تو باقاعدہ میلہ مویشیاں کی طرح منڈی کو باقاعدہ سجایا گیا۔ خریداروں کے لئے بہت سہولتیں فراہم کی گئیں۔ بکاﺅ مال بھی اپنے آپ کو سجا بنا کر کوٹھے کی طوائف کی طرح اپنے اپنے دریچوں میں اپنی اپنی اوطاق میں گاہکوں کو لبھا کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ پنجاب میں تقریباً 30 سے پینتیس ممبران نے چوری کا مال فروخت کرکے اس مقابلہ میں اپنی شمولیت کا اعلان کیا اس ہی طرح کے پی کے میں تقریباً 12 سے چودہ ممبران نے اپنی بولی لگوائی۔ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ ممبران اسمبلی بننے کے لئے انہوں نے بہت خرچے کئے، پہلے تو پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے بڑا خرچہ کیا، اس کے بعد انتخابات میں اپنے آپ کو کامیاب کروانے کے لئے قیمہ والے نانوں سمیت بہت بڑا خرچہ کیا، اسی طرح کافی انویسٹمنٹ کے بعد یہ ممبر منتخب ہوئے اب اس طرح کے موسم میں وہ لوٹ سیل لگا کر اپنی اپنی بولی زیادہ سے زیادہ لگوا کر نہ صرف اپنے اخراجات کو پورا کرتے رہے بلکہ آئندہ کے لئے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لئے کھلی منڈیا لگادیں۔ کراچی میں ووٹوں کی چوری نہیں ہوئی بلکہ کھلم کھلا ڈکیتی ہوئی یہاں لوٹنے والوں نے بھی سینا زور سے لوٹا اور لٹنے والوں نے اپنے آپ کو چوراہے پر کھڑے ہو کر لٹوایا اور اپنی اپنی قیمت بغیر شرم حیا کے وصول کی۔ خریداروں نے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں بہت ارزاں قیمتوں پر مال اٹھایا اور ثابت کیا وہ نہ صرف بڑے ڈاکو نہیں بلکہ بڑے سیانے بھی ہیں۔ چپڑی اور دو دو۔ مگر جنہوں نے اپنے دام وصول کئے انہوں نے نہ صرف اپنی بہت کم قیمت وصول کی بلکہ مال بھی اس طرح لٹایا کہ جیسے کوئی چور دوسرے کا مال چوری کرکے چور بازار میں اونے پونے فروخت کردیتا ہے۔ بات ہے بھی درست کہ انہوں نے اپنا مال فروخت کیا ہوتا تو وہ قیمت بھی پوری وصول کرتے بلکہ انہوں نے گھر کا مال چرا کر گھر والوں کو بتائے بغیر چور بازار میں فروخت کردیا۔ جیسے جو بچا تھا وہ لٹانے کے لئے آئے ہیں۔
مگر جو مال لٹایا وہ مال ان کے پاس امانت تھا ان کا جنہوں نے ان کو مال کے ساتھ ساتھ ووٹ دیا خون دیا اور اپنا مستقبل ان کے حوالے کر دیا اپنی دو نسلیں ان کے سپرد کردیں۔ اس امید پر کہ وہ اسمبلیوں میں جا کر ان کے حقوق دلوائیں گے ان کے ووٹروں نے ان اراکین کو گمنامی اور غربت سے نکال کر اسمبلیوں تک پہنچایا ان کے ووٹروں نے ان سے ایک ہی مطالبہ کیا کہک وہ کیوں ان کے حقوق کی خاطر مخلصانہ جدوجہد کریں یوں انہوں نے اپنا مستقبل ان کے حوالے کر دیا۔ یہ پل دو پل کی بات نہیں بلکہ قصہ ہے گزشتہ ستر سالوں کا جب سے ان کے حقوق پر ڈاکے ڈالنے شروع ہوئے جیسا کہ اب سینیٹ کے الیکشن میں نظر آرہا ہے ان ارکان کا اپنے منتخب ہونے کے لئے نہ دام نہ درم نہ سخن کچھ بھی اپنے پاس سے خرچ نہیں کرنا پڑا۔ ان کو اس امید پر کامیاب کروایا جب وہ منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچیں گے تو وہ ان کے حقوق کی آوازیں بلند کریں گے۔ وہ گزشتہ تیس سال سے ان کو بغیر کچھ ادا کئے ہوئے منتخب کرواتے چلے آئے ہر بار اس امید پر شاید اب ان مظلوموں کی تقدیر میں کچھ بہتری لکھ دی جائے ان کے ساتھ سلوک جو پاکستان بننے کے بعد چالیس سال تک ہوتا رہا وہی سلوک ان کے نمائندوں نے گزشتہ تیس سال سے روا رکھا۔ میری دنیا لٹ رہی تھی اور میں خاموش تھا انہوں نے بھی جو اپنے آپ کو قومی رہنما قرار دیتے ہیں، وہی سلوک کیا جو اب اپنے ہی گھر کے لوگ کررہے ہیں۔ جب گھر والے ہی آپ کو چوراہے پر لا کر آپ کی بولیاں لگوائیں تو غیروں سے کیا گلہ۔ آج فاروق ستار، خالد مقبول، عامر خان، آفاق احمد، مصطفیٰ کمال کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب کچھ ان مظلوموں کے خوں کی خیرات ہے جس کو وہ اپنی ذاتی دولت سمجھ کر آپس میں دست و گریباں ہیں۔ یہ لوگ اب سے کچھ عرصے پہلے تک کس حیثیت کے حامل تھے۔ ان کے پاس اپنا کیا سرمایہ تھا، کیا یہ کبھی سوچ بھی سکتے تھے کہ یہ ان مظلوموں کے بغیر سینیٹ قومی اسمبلیوں، صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ اپنے علاقے سے کونسلر بھی منتخب ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے؟ ان کے پاس اپنا کچھ نہ تھا مگر جب ان مظلوموں نے ان کو ایوانوں میں پہنچایا تو یہ سمجھنے لگے کہ یہ ان کا حق ہے یہ ان کا حق نہیں تھا بلکہ امانت تھی ان مظلوموں کی جنہوں نے اپنی خون کی قیمت پر ان کو اس مقام تک پہنچایا۔ انہوں نے اپنے زیور فروخت کرکے ان کی انتخابی مہم کو چلایا۔ راتوں کو جاگ جاگ کر ان کے لئے نہ صرف اپنے ووٹوں سے بلکہ اپنے پیسے دوسرے مظلوموں کے ووٹوں کے ذریعہ ان کو کامیاب کروایا ان کے پاس اپنا کیا تھا سب ان مظلوموں کے خون پسینہ کی کمائی انہوں نے فروخت کردی۔ ذرائع بتاتے ہیں سب سے کم قیمت میں ووٹ ان کا ہی فروخت ہوا۔ اور وہ قومی جماعتوں کے نام نہاد رہنما جن کی اپنی سوچ اب تک علاقائی حدود سے آگے نہیں نکلی انہوں نے بھی ان مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے لوٹ کا مال ارزاں قیمت پر خرید کر ان پر نمک چھڑکا۔ یہ کس منہ سے ان مظلوموں کے سامنے جائیں گے، نہ مال فروخت کرنے والے نہ ہی ان کے خریدار
اب نوبت یہ ہو گئی ہے
دیوار کیا گری میرے کچے مکاں کی
لوگوں نے میرے صحن سے رستے بنا لئے
اور ہم ہیں کہ
اپنے کسی حریف سے واقف نہیں ہوں میں
اپنے سوا کسی کا مخالف نہیں ہوں میں
849