بٹوارے کا لفظ جیسے ہی ہمارے سامنے آتا ہے، ہمارے ذہن میں ہندوستان کا بٹوارہ جنم لیتا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان وفود میں آیا حالانکہ بٹوارے کا لفظ بہت وسیع ہے اور کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں مراد انسان کا مذہب، علاقے، نظریات یا بلاوجہ کی مخالفت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے علیحدہ ہونا ہے اور یہ بٹوارہ نفرت کی پیداوار ہوتا ہے۔ بٹوارہ انسان کی گھٹی میں شروع ہی سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس نفرت اور بٹوارے کی ابتداءہابیل قابیل سے شروع ہو گئی تھی جب ایک نے دوسرے کو برداشت نہیں کیا اور قتل کردیا۔ دنیا کی کئی بڑی سلطنتیں بھی اس بٹوارے کی نذر ہوگئیں۔
1947ءمیں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا، آزادی کی خواہش اور انگریزوں سے نجات تو ہندوستان میں رہنے والے تمام مذاہب اور علاقے کے لوگوں نے کی لیکن بٹوارہ مذہب کی بنیاد پر ہوا جس کی خواہش خود ہم نے کی اور بٹوارے کا یہ عمل یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ بٹوارہ ہوتا رہا، آج تک ہماری قوم کسی ایک بات پر متفق نا ہو سکی اور نا ہی متحد ہو سکی، پاکستان کے وجود میں آجانے کے بعد مزید بٹوارہ ہوتا رہا۔ سب سے پہلے کرسی کے لئے سازشیں شروع ہو گئیں اور گروپ بن گئے، اس کے بعد قائد اعظم کی شخصیت کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں بٹوارہ شروع ہو گیا، کچھ افراد کا کہنا تھا اور ایسے لوگوں کی تعداد ابھی بھی موجود ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ قائد اعظم نے انگریزوں اور ہندوﺅں کے ساتھ مل کر ایک سازش کے تحت پاکستان بنایا اور پاکستان غلط بنا یا بننا ہی نہیں چاہئے تھا اور ان کی شخصیت اور مذہب کے بارے میں بے شمار الزامات بھی ہیں۔ بقیہ لوگ کہتے ہیں کہ قائد اعظم ہمارے محسن تھے اور انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں پر بہت بڑا احسان کیا اور انہیں ایک آزاد نئی اسلامی مملکت سے نوازا۔ یہاں میں اپنا نظریہ محفوظ رکھتا ہوں کیونکہ جب آپ کوئی مقدمہ لکھ رہے ہوتے ہیں تو اپنے نظرئیے کا پرچار نہیں کرتے۔
بہرحال قائد اعظم کے بارے میں یہ دو نظرئیے آج بھی موجود ہیں۔ پھر لیاقت علی خان کی شخصیت کے بارے میں متضاد رائے اور بیانات مختلف کتابوں کے حوالے دے کر ان سے اختیارات لئے گئے جب کہ اصل مضمون میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ تحریر میں ردوبدل کیا گیا ہے، کہا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان قائد اعظم کے خلاف تھے، جس کا علم قائد اعظم کو بھی تھا اور لیاقت علی خان قائد اعظم کے خلاف سازش کررہے تھے۔ ان تمام باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ثبوت تو اس بات کا بھی نہیں ملا کہ قائد اعظم کی وفات بھی ایک سازس کا نتیجہ تھی، اس کے بارے میں بھی متضاد بیانات موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کی شہادت اور قائد اعظم کی وفات کا معمہ کبھی حل نہ ہو سکا۔ آج تک لیاقت علی خان کے اصل قاتلوں کا پتہ نہیں چل سکا۔ ایوب خان کی پالیسی اپنے ملک کے بارے میں بہت اچھی تھی اور اس کے دور میں بے انتہا ترقی ہوئی لیکن اس کی حکومت میں علاقائی اور قومیت کا بٹوارہ زیادہ واضع طور پر اجاگر ہوا اور اس کی اہم وجہ ایوب خان اور فاطمہ جناح کے درمیان لیکشن بنی۔ اس دور میں فسادات ہی ہوئے، اب یہ کہنا قدرے مشکل ہے کہ ایوب خان ارادی یا غیر ارادی طور پر اس کا سبب بنے یا نہیں لیکن گوہر ایوب کا کردار ان معاملات میں ابھر کر سامنے آیا اور یہ تنازع اس حد تک بڑھا کہ ایوب خان کو استعفیٰ دینا پڑا لیکن اس استعفیٰ میں ایک بڑا کردار بھٹو کا بھی تھا۔ بھٹو ایک ذہن لیڈر تھا لیکن اپنے مفادات کے لئے کوئی بھی قدم اٹھانے سے نہیں چوکتا تھا۔ بھٹو کے دور میں علاقائی اور لسانی عصبیت کو اور ہوا ملی اور قوم میں مزید بٹوارہ ہوا۔ ایک بڑا سانحہ اور بٹوارہ بنگلہ دیش کی صورت میں بھی سامنے آیا اور ہم ملک کے ایک بڑے حصے سے محروم ہو گئے۔
یہاں بھی وجہ علاقائی اور لسانی تعصب بنی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ایک حصہ کھو دینے کے بعد بھی عقل نہیں آئی اور ایک حصہ مغربی پاکستان کی صورت میں بچا ہے اسے بھی تباہ کر دینے کے درپے ہیں۔ لوگ علاقے زبان، قومیتوں میں بٹے ہوئے ہیں، نفرتیں بڑھتی جارہی ہیں، لیڈران اپنے قدم جمائے رکھنے کے لئے اپنے اپنے علاقوں میں مزید تعصب کو ہوا دیتے ہیں اور اس وقت ایک ملک ہونے کے باوجود چار حصوں میں بٹا ہوا ہے اور ہر حصہ اپنی من مانی میں لگا ہوا ہے۔ وفاقی حکومت چاہے کسی کی بھی ہو، صوبائی معاملات میں بالکل بے بس نظر آتی ہے، خدا نا کرے کہ ملک مزید کسی بٹوارے کی طرف جائے۔
198