۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 261

رائی برابر نیکی

ریاست مدینہ بنانے کا تصور ایک بہت دلاویز بات ہے اور ہر شخص سوچتا ہے کہ اگر اقتدار اس کے ہاتھ آ جائے تو وہ بھی ایک مثالی ریاست مدینہ بنا دے گا۔ یہ تصور صرف تصور کی حد تک ہے کیونکہ جب اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو پھر انسان کو کچھ یاد نہیں رہتا اور پھر اس کے ہاتھ میں جب سب کچھ آ جاتا ہے تو پھر ساری دنیا کو فراموش کر دیتا ہے۔ دراصل ہم اپنی اوقات اور اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے چھوٹی چھوٹی سی نیکیاں کر گزریں تو یہی نیکیاں مجتمع ہو کر اللہ کے نزدیک پہاڑ بن جاتی ہیں کہ اس نے کہا کہ رائی برابر بھی کی گئی نیکی ضائع نہیں ہوتی۔
رائی ایک انتہائی چھوٹا دانہ ہوتا ہے مگر وہ اپنی جسامت کے باوجود سب سے زیادہ پھل دینے والا پودا ہے اسی طرح اگر انسان بلا تحصیص مذہب چھوٹی چھوٹی سی نیکیاں کرتا رہے تو یہ دنیا مثالی جنت بن سکتی ہے کیوں اس بات کا انتظار کیا جائے کہ اگر اللہ ہمیں اتنا دے کہ ہم اپنی ضروریات کے بعد لوگوں کی بھلائی کے لئے کام کریں تو آج تک کوئی فرد بھی ایسا نہیں گزرا کہ جو یہ کہہ سکے کہ ہاں اب میری ضروریات پوری ہو گئی ہیں۔ میں اب لوگوں کی بھلائی کے لئے کردار ادا کروں گا مگر وہ لوگ جنہیں خدا نے انسانوں کا درد دل میں پیدا کیا ہے وہ اس بات پر کاربند ہوتا ہے کہ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
یعنی تخلیق انسان محض خدا کی عبادت ہی نہیں ہے اس کے لئے خدا کے وہ لاتعداد فرشتے تخلیق کئے گئے جو ہر دم اس کے لئے رکوع و سجود میں محو عبادت ہیں اس انسان کی تخلیق کا مقصد بنی نوع انسان کی خدمت، دوسروں کے کام آنا اور گرتے ہوﺅں کو تھام لینا ہے مگر اس کے برعکس ہم نے محض عبادت کو ہی اپنا مقصد حیات بنا لیا اور خدا کی مخلوق کو فراموش کردیا۔
آج اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ انسانیت کی معراج ہی انسان کا انسان کے کام آنا ہے اس میں کہیں مذہب، عقیدہ اور فرقہ بندی موجود نہیں ہے اور آج بھی اگر آپ اپنے ہی معاشرے میں نظر دوڑائیں تو اس کی زندہ مثالیں آپ کے چاروں طرف بکھری نظر آئے گیں جو بلا کسی صلح و ستائش کے خدا کے بندوں کے کام کررہے ہیں جس میں نہ کثیر دولت کی ضرورت ہے اور نہ نام و نمود کی ایسے ہی کرداروں میں سے ایک کی مثال ایک صاحب نے دی ہے انہوں نے لکھا کہ ”اندر کی ریاست ہمارے اختیار میں ہے“ ایک صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا جنہیں نہایت مطمئن پایا اور باتوں باتوں میں کچھ ایسے راز کھلے کہ اپنی زندگی بیکار نظر آنے لگی۔ بولے کہ میں بہت زیادہ امیر نہیں ہوں مگر ہر وقت گھر میں چھوٹی پانی کی ڈسپوزیبل بوتلیں رکھتا ہوں اور گرمی کے موسم میں جب بھی باہر نکلتا ہوں تو دو سے تین ٹھنڈی کی ہوئی بوتلیں ساتھ رکھ لیتا ہوں اور منزل تک پہنچتے ہوئے راہ چلتے سائیکل سوار کسی دھوپ میں کھڑے چوکیدار یا مالی وغیرہ کو پکڑا دیتا ہوں اور ان سے آسمان کو چھونے والی دعائیں لیتا ہوں۔ بازار آتے جاتے دو شوارمے خرید لیتا ہوں اور کسی مناسب شخص کو پکڑا دیتا ہوں۔ مسجد کے پیش امام کا جس دوکان میں ادھار چلتا ہے وہاں اس کا پچھلا کھاتا مہینے میں ایک دفعہ کلیئر کر آتا ہوں۔ مسجد صاف کرنے والے خادموں کے گھر کا کرایہ تھوڑا سا ہی ہوتا ہے وہ ادا کر آتا ہوں۔
یہ سوچتے ہوئے کہ یہ اللہ کے گھر کے خادم ہیں۔ علاقہ کے میڈیکل اسٹور والے کو کچھ رقم دے آتا ہوں کہ غریب دیہاڑی داروں سے منافع لینے کی بجائے اس رقم سے لے لیں اور انہیں دوائی مناسب قیمت پر دیدیں۔ بچے چھٹی والے دن باہر کا ناشتہ لانے کو بولیں تو آتے وقت دوچار حلوہ پوری ایکسٹرا لے آتا ہوں اور راستے میں کسی کو دے دیتا ہوں۔
کسی اسٹور سے کوئی چیز خریدتے وقت کوئی بچہ آجائے تو اس کی ساری شاپنگ کی پیمنٹ کر دیتا ہوں۔
ان صاحب نے لکھا کہ یہ سب سن کر میرے ہواس جاتے رہے کہ یہ تو آسان اور سستے سے کام ہیں۔ پھر اپنے چھوٹے بھائی سے اس حوالے سے بات ہوئی جو مدینہ میں ہوتے ہیں تو بولے کے مدینہ شریف میں ایسا ہی ہوتا ہے اور روز ہوتا ہے تو بدن سن ہو کر رہ گیا کہ ہم روز حکمرانوں سے ریاست مدینہ کا تقاضا کرتے ہیں کیا کبھی اپنے اندر کی ریاست کو بھی مدینہ جیسا بنانے کی کوشش کی ہے؟؟؟
ذرا غور سے دیکھا جائے تو ہم میں سے ہر شخص ریاست مدینہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، بات صرف احساس کی ہے، چند واقعات خود راقم الحروف کے تجربے میں سے آئے ہیں کہ دوران عمرہ سارے لوگ غار حرا کی زیارت کے لئے گئے اور جب وہاں پہنچے تو لوگ اس بلند پہاڑ پر جانے کے لئے سیڑھیوں کی طرف بڑھے مگر ایک صاحب جو شاید اتنی ہمت نہیں رکھتے تھے، نیچے ہی بیٹھ گئے، تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے دیکھا کہ شدید ترین گرمی میں لوگ وہاں بیٹھے ہوئی ہیں اور وہاق پانی وغیرہ کا کوئی بندوبست نہیں، یہ دیکھ کر وہ صاحب اٹھے اور آتے ہوئے انہوں نے نیچے ایک دوکان دیکھی تھی اس کی سمت روانہ ہو گئے جو کہ بہت زیادہ فاصل پر تھی وہ سخت دھوپ میں وہاں گئے اور وہاں پانی کی چھوٹی یخ بستہ بوتلیں لے کر واپس آئے اور لوگوں میں تقسیم کردیں اس طرح انہوں نے اپنے تئیں اپنا کردار ادا کردیا اسی طرح چھوٹی چھوٹی سی نیکیاں ہماری کردار میں جو طہارت پیدا کرتی ہیں ان کا کوئی مول نہیں ہوتا اور یہ سب محض اللہ کی رضا کے لئے ہی کیا جاتا ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ اللہ کی مخلوق کے لئے انسان جو بھی رویہ اختیار کرتا ہے اس کا اجر اس دنیا میں ہی مل جاتا ہے۔ آخرت کی خبر اللہ ہی جانے۔ اشفاق احمد ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ایک صبح وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ صبح کی سیر کے بعد واپس جا رہے تھے کہ بیٹے نے گاڑی روک کر کہا کہ چڑیوں کا دانہ ختم ہو گیا ہے وہ لیتے چلتے ہیں۔ اشفاق صاحب نے لکھا کہ ہم نے گھر کی چھت پر پرندوں کے لئے دانہ پانی کا بندوبست کر رکھا ہے۔ ان کا بیٹا جب دانے لے کر پیسے دینے لگا تو پتہ چلا کہ وہ بٹوہ لانا بھول گیا ہے وہ اشفاق صاحب کے پاس آیا اور کہا کہ میں پیسے لانا بھول گیا ہوں، آپ دیدیجئے۔ اتفاق سے اشفاق صاحب کے پاس بھی پیسے نہیں تھے ان کا بیٹا دوکان میں واپس گیا اور دوکاندار سے کہا کہ وہ پیسے لانے بھول گئے ہیں لہذا وہ دانے دوبارہ لے کر جائے گا۔ دوکاندار نے کہا کہ آپ دانے لے جائیے، پیسے بعد میں دیدیجئے گا۔ بیٹے نے کہا کہ آپ ہمیں جانتے نہیں ہیں تو کس طرح ہم پر اعتبار کررہے ہیں۔ دوکاندار نے کہا میں آپ کو نہیں جانتا مگر یہ جانتا ہوں جو شخص پرندوں اور جانوروں کا اس قدر خیال رکھتا ہوں وہ بے ایمان نہیں ہو سکتا۔
اندازہ لگائیں جب خدا کی مخلوق کا خیال رکھنے والا اتنا معتبر ہو سکتا ہے تو جو اشرف المخلوقات کے ساتھ نیکی کرے گا اس کا اللہ کے نزدیک کیا درجہ ہوگا۔ آپ اپنے حصے کی رائی کو بوتے رہیے۔ اللہ پاک اس کے عیوض کیا عطا کرے گا وہ بے حساب ہو گا۔ جزاک اللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں