پچاس سال گزر جانے کے بعد کراچی کے باسیوں کی تکلیف کا احساس شاید موجودہ چیف جسٹس کو ہوا اور انہوں نے کراچی والوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ملک کے تمام ارباب اختیار کو لتاڑنا شروع کردیا۔ ایک بار اہل کراچی کو یہ امید بندھی کہ شاید ان کی تکالیف کا مداوا ہونا شروع ہوا۔ کراچی والوں کی تکالیف وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہیں، کبھی اپنوں نے ان میں اضافہ کیا، کبھی باہر کے لوگوں نے سب نے اس شہر کو اس ہی طرح لوٹا جیسے پرانے زمانے می ہندوستان کو سونے کی چڑیا سمجھ کر باہر سے آنے والوں نے لوٹا۔ وہ لوگ تو لوٹ مار کرکے وپس چلے جاتے تھے مگر یہاں غیروں کے ساتھ ساتھ تو اپنوں نے بھی لوٹا۔ کراچی والے پاکستان کے سب سے زیادہ شعور رکھنے والوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کا اظہار بیرونی ملکوں کے ابلاغ میں بھی ہوتا تھا۔ برطانوی ادارہ بی بی بی بھی شامل تھا۔ جس میں ان کا ایک مشہور پروگرام سیربین لوگوں میں بہت پسند کیا جاتا تھا۔
اس ہی زمانے میں بی بی سی نے پاکستان کے سیاسی اداروں اور انتخابی حلقوں پر تجزیہ پیش کئے اس میں انہوں نے مختلف سروے کے بعد انکشاف کیا کہ پاکستان کا سب سے زیادہ سیاسی طور پر باشعور شہر کراچی ہے اس میں سے دو حلقے جو ناظم آباد، لیاقت آباد، گلبہار پورے ملک میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ انتخابی حلقوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ جب کہ اس زمانے میں کراچی سے منتخب ہونے والے معروف سیاستدانوں میں پروفیسر غفور احمد، شاہ احمد نورانی، شاہ فرید الحق، ظہور الحسن بھوپالی، منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچے۔ پاکستان کی اس منتخب مگر ادھوری اسمبلی میں منتخب ہونے والے ارکان نے پاکستان کا پہلا دستور بنانے میں کامیابی حاصل کی مگر جو اعزاز کراچی کے ان دو حلقوں کو ملک کا سب سے تعلیم یافتہ علاقہ ہونے کا حاصل ہوا اور جو حیثیت شہر کراچی کی تھی یہ وہ وقت تھا جو اس شہر کا اور اس کے باسیوں کا عروج کا زمانہ سمجھا جاتا تھا۔ حالانکہ اس شہر کے ساتھ ماضی میں سب سے بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ اس شہر سے دارالحکومت تبدیل کرکے اسلام آباد منتقل کردیا گیا پھر محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کے جرم میں اس شہر کو تسخیر کرنے کے لئے 1965ءمیں چڑھائی کی گئی اس طرح سے ان کو سزا دینے کی ابتداءکی گئی۔
پھر اس پر 1972ءمیں کوٹہ سسٹم کی مار لگائی گئی یوں اس شہر کو سزا دینے کا ایک مستقل سلسلہ شروع کردیا گیا۔ یہ سزا تھی اس شہر کو اور اس کے باسیوں کو اس کے میرٹ پر چلنے کی جس کو اختیار کرکے یہاں کے لوگ حکمرانوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ اس کے برخلاف پاکستان کے ہر علاقے میں شروع سے ہی وہاں کے باشندوں کو جبر کے ذریعہ دبا کر رکھا گیا تھا جس میں وہ اپنی مرضی سے کسی کو منتخب بھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ پاکستان کی اسمبلیوں میں جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، سرمایہ داروں اور خانوں نے اپنی اپنی جگہ مضبوطی سے قائم کی ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنے اپنے علاقوں کو اس طرح سے دبا کر رکھا تھا کہ وہاں کے لوگ اپنی مرضی سے نہ اپنی فصل بو سکتے تھے نہ ہی اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکتے تھے، نہ ہی وہ اپنے علاقوں سے اپنی مرضی کے لوگوں کو منتخب کرسکتے تھے مگر کراچی کے شہر کی نوعیت ان سب سے مختلف تھی۔ اس شہر کے لوگوں نے اپنے حقوق کی خاطر بڑے سے بڑے حکمرانوں سے ٹکر لے کر یہ ثابت کیا ان پر کوئی جبر نہیں کر سکتا، اس علاقے کے لوگ ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلہ میں زیادہ باشعور تھے کیونکہ ان پر کوئی ایسا فرد مسلط نہیں تھا جو ان پر جبر کر سکے جس طرح دوسرے علاقوں میں جاگیردار، وڈیروں، سرداروں نے جبر کا نظام قائم کیا ہوا تھا۔ جن کی اپنی ذاتی جیلیں تھیں، اپنا مخصوص انصاف تھا، اپنا ذاتی معیار تھا، اپنا انداز حکمرانی جبر تھا، جس کے آگے کوئی عام انسان سر اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا مگر کراچی کے لوگ اس سے بالکل مختلف تھے اس لئے ملک کے دیگر جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں نے ان کو سزا دینے کے منصوبے بنانے شروع کر دیئے۔ پھر اس طرح کے منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے موقع کی تلاش میں رہے یوں اس طرح ان کو ایسا موقع ضیاءالحق نے فراہم کردیا۔ جس کی ابتداءکراچی کے علاقے ناظم آباد سے کی گئی اس طرح ایک حادثہ نے کراچی کی ترقی کا سفر معکوس کی جانب کردیا۔ یہ حادثہ تاریخ میں بشریٰ زیدی کے نام سے منسوب ہوا۔ جو 1983ءمیں شروع ہوا۔ پھر کراچی کے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کے نام سے ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے کراچی کو اجاڑ دیا پھر کراچی کی حالت غریب کی جورو کی مانند ہو گئی۔ یہاں پر بھی وہی جبر کا نظام قائم ہونا شروع ہوا جو پاکستان کے دیگر علاقوں میں ایک طویل مدت سے قائم رہا بلکہ وہ جبر کا نظام وقت کے ساتھ ساتھ طاقت پکڑتا چلا گیا جن کو وہ اپنا سمجھتے تھے وہ بھی کراچی پر جبر کا نظام قائم کرنے میں شریک تھے وہ بھی جو ان کے اپنے نہیں تھے۔
قیام پاکستان کے ابتدائی زمانے میں کراچی والوں کی خودسری کی سزا انہوں نے دی جن کو غیر سمجھا گیا۔ پھر ان کو خودسری کی سزا انہوں نے دینا شروع کی جن کو وہ اپنا سمجھتے تھے۔ کراچی کے لوگوں نے اپنی خودسری کی سزا اپنوں سے بھی پائی اور غیروں سے بھی۔ پھر وہ بھی پاکستان کے ان دیگر علاقوں کے لوگوں میں شامل کر دیئے گئے جنہیں اپنی مرضی سے سانس بھی لینے کی اجازت نہیں تھی مگر فرق یہ تھا کہ دیگر علاقوں کے لوگ ایک طویل مدت سے ایک عالم بے خودی میں جی رہے تھے اور اپنے اوپر مسلط لوگوں کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور تھے کیونکہ ان کو بے حس بنا دیا گیا تھا۔ مگر کراچی کے لوگوں کے پاس احساسات تھے، جذبات تھے، فکر تھی، سوچ تھی، شعور تھا، مگر وہ اس جبر کے نظام میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ ان کی نوعیت اس مریض کی سی تھی جس کو زخم لگائے جارہے تھے مگر ان کو ہوش میں رکھ کر۔ بغیر سن کئے، ان کے جسموں پر زخم کبھی ڈرل مشین سے لگائے جاتے کبھی ان کے زخموں کو اس طرح لگایا جاتا وہ اپنے درد کی شدتپر اف بھی کر سکیں، ان کے شعور کو کچوکے دیئے جاتے ان کی فکر پر کوڑے برسائے جاتے، کبھی ان کی سوچ کو ان پر عذاب بنا دیا جاتا، بندوق کی گولی تو معمولی بات تھی، یعنی کراچی کے لوگوں پر دیگر علاقوں کے مقابلہ میں دوہرا ظلم کیا جارہا تھا ایک ظلم تو ان کے شعور فکر سوچ پر زخم لگا کر دوسرا ان کو جسمانی تشدت کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ یہ سب مل کر ان کو معاشی تشدت کا باعث ہو رہے تھے مگر پھر بھی ان کی یہ سوچ رہی یہ فکر رہی یہ ہی شعور رہا۔
غم انسانیت رکھا ہے دل میں
نظام جبر کا باغی رہا ہوں
