سب مایا ہے، سارا عالم کلج±گ ہے۔ اس طرح کی ضرب الالمثال ہم آپ روزانہ ہی سنتے ہیں۔ لیکن ان کے عملی معانی ہمیں تجربے کے بعد ہی پتہ چلتے ہیں۔ اپنے کچھ حالیہ، دل دوز ، اور درد انگیز تجربات کا ذکر ہم آگے چل کر کرتے ہیں۔ اس سے پہلے اس موضوع پر ابنِ انشا کی ایک نظم کا اقتباس پیش کرتے ہیں:
سب مایا ہے، سب ڈھَلتی پھِر تی چھایا ہے
اس عشق میں ہم نے جو کھویا ، جو پایا ہے
جو ت±م نے کہا ہے، فیض نے جو فرمایا ہے
سب مایا ہے۔
مایا کے سامنے کے معانی تو ، فریب، سراب، دھوکا ، وغیرہ ہیں۔ صوفی، سادھو، سنت اس کو استعاراتی معانی میں استعما ل کرتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی اور انسانوں کی بے بضاعتی کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مایا کی کیفیت کو مختلف صحائف میں بھی بیا ن کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر دنیا کے فلسفیوں نے بھی مباحث کی ہیں۔ قرآن میں ایک آیت اس کو واضح طور پر اس طرح سمجھاتی ہے: وما حیا الدنیا الا متاع الغرور۔ یعنی،”رہی یہ دنیا یہ تو صرف ایک ظاہر فریب چیز ہے“۔
ہم بھی اس دنیا میں اس دھوکے میں شامل بھی ہیں اور اس کا دکھ بھی اٹھانے والوں میں بھی ہیں۔ ہمار ایک کردار، پردیس میں ایک ادیب، شاعر، کالم نگار، اور ادبی منتظم وغیرہ کاہے۔ ہم یہاں مختلف ادبی انجمنوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ اور سالہا سال سے کم نفری ، اور پر ہجوم ادبی تقریبات میں شرکت بھی کرتے رہے ہیں ، اور بسا اوقات ان کے انتظام میں بھی۔ یہ سب کرتے ہوئے ہم اس دھوکے میں رہتے ہیں کہ ادبی مجمع لگا کر، مشاعرے، مذاکرے کروا کر ہم شاید ادب ثقافت کی کوئی بہت بڑی خدمت کر رہے ہیں اور اپنے ساتھ دیگر احباب کی ذہنی وسعت میں شریک ہیں۔ کئی بار اندازہ بھی ہوتاہے کہ یہ سب دھوکا اور شاید خود فریبی ہے۔ اس راہ میں پذیرائی کم اور سنگ و دشنام کی بارش زیادہ ہوتی ہے۔ اور جدھر جدھر سے جلوس ِ رسوائی گزرتا ہے، اس پر تماشائی قطار در قطار کھڑے ہوتے ہیں، اکثر ادبی محفلوں میں بھی صاحبانِ ذوقِ ادب سے کہیں زیادہ وہ تماشائی ہوتے ہیں ، جو زرق برق کپڑوں میں ملبوس ان محفلوں میں سماجی ملاقاتوں کے لیئے شریک ہوتے ہیں۔
ایسے ہی ایک جلوسِ رسوائی میں ہماری ملاقات کینیڈا میں مقیم ، ممتاز ادیب، ناول نگار ، اور دانش ور۔ اکرام بریلوی سے ہوئی تھی۔ حفیظ جالندھری نے شاید ان ہی جیسی شخصیات کے لیئے کہا تھا کہ ، تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے۔ نصف صدی کا قصہ ہے ، دو چار برس کی بات نہیں۔ یہ اکرام صاحب ہی تھے جنہوں نے ہمیں کینیڈا کی اہم ادبی تنظیم ’رائٹرز فورم ‘ میں داخل کیا تھا۔ بعد میں ان کے مرتبے کے لحاظ سے انہیں اس تنظیم کی سرپرستی کی دعوت دی گئی تھی۔ جسے انہوں نے قبول کیا۔ اور وہ سالہا سال اس کے سرپرست بھی رہے۔ وہ اپنی ادبی سرگرمیوں کے علاوہ جدیداردو ادب کی تاریخ پر بھی عبور رکھتے تھے۔ ان کے دوستوں میں انتظار حسین بھی تھے،حسن عسکری بھی، اور ڈاکٹر عبادت بریلوی بھی۔ یہ ایک بڑی ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ادبی تنظیموں کو دیگر ادیبوں سے ہی مسابقت بھی پیش آتی ہے، اکرام صاحب اکثر کہتے تھے کہ بعض ادیب ان سے بارہا کہتے ہیں کہ رائٹرز فورم کو توڑ دیا جائے، یا اکرام صاحب اسے چھوڑ دیں۔ لیکن وہ زمانے تک ثابت قدم رہے۔ لیکن ایک رات اچانک وہ رائٹرز فورم کے احباب کو اطلاع دیئے بغیر رائٹرز فورم کے مخالفوں کی بنائی ہوئی رائٹرز فورم کی ہم نام انجمن کے سرپرست بن گئے، رائٹرز فورم والوں سوائے ان کے احترام کے اور کیا کر سکتے تھے۔ یہ الگ بات کہ اکرام صاحپ اپنے انتقال تک اپنے اس فیصلے پر افسوس کرتے رہے۔ اور پھر وہ ہم نام انجمن بھی تقریباً غیر فعال ہوگئی۔
اکرام صاحب محفلوں کی جان تھے۔ ان کی زندگی میں بعض ادبی انجمنیں ان کی سالگرہ اور ان سے منسوب دیگر جشن مناتی تھیں ، اور مجمع بازی کی خود فریبی میں مبتلا رہتی تھیں۔ پھر اکرام صاحب شدید بیمار ہو گئے ، اور تنہا ایک ،سینیر ہوم میں رہنے لگے۔ ان سے آخر تک باقاعدہ ملنے والوں میں بس ایک نفیس انسان اور شاعر کلیم ظفر اور اکا دکا لوگ شامل تھے۔ اسی تنہائی میں اکرام صاحب کا انتقال ہوا۔ اس دنیا کے مایا ہونے کے معنی ہم پر ان کے جنازے میں کھلے۔ ان کے جنازے میں زیادہ سے زیاد تین چار ادیب اور ادب دوست شامل تھے۔ وہ بھی مسجد میں۔ قبرستان تک وہ بھی نہ تھے۔ اس کے چند دنوں کے بعد ان کی صاحبزادی انجم نے ان کے سوئم پر ایک امام بارگاہ میں اسّی لوگوں کے طعام کا انتظام کروایا۔ وہاں بھی یہی حالت تھی۔جب صرف دس بارہ افراد شریک تھے، منتظمین سمیت۔ وہ سب جوان کے ساتھ تصویریں کھنچواتے تھے، ان کے نام سے فائدہ اٹھاتے تھے، کہیں نہیں تھے۔ کینیڈا کے ادیب ، شاعر ، ادب دوست خوش نصیب تھے کہ انہیں کینیڈا میں ممتاز دانش ور، اورعالمی شاعری کے اردو میں ترجمہ نگار ، ضمیر احمد صاحب سے استفادہ کا موقع ملا۔ ضمیر صاحب ایک نفیس و نستعلیق انسان تھے۔ وہ ممتاز شاعر محبوب خزاں کواپنا محب و مہربان گردانتے تھے۔ان کے قدر دانوں میں شمس الرحمان فاروقی بھی تھے، اور گوپی چند نارنگ بھی۔ ان کے تراجم کا پہلا مجموعہ انجمن ترقی اردو نے شائع کیا تھا، اور دوسرا مجموعہ رائٹرز فورم کے مشورے پر انہوں نے ڈاکٹر آصف اسلم فرخی کے اشاعت گھر سے شایع کیا تھا۔ جب ان کا نام پھیلا تو ان کے گرد بھی مداحوں اور خوشامدیوں کا گھیر ا لگنے لگا تھا۔ پھر وہ بھی شدید بیمار ہوئے اور انہوں نے بھی کم و بیش گھر کی تنہائی میں کئی برس گزارے۔ سابقہ مداح بھی ان سے خال خال ہی ملتے۔ گو یہی خواتین و حضرات اس دور میں بھی نمائشی ادبی محفلوں میں بارہا دیکھے جاتے تھے۔ گزشتہ دنوں ضمیر صاحب کا انتقال ہوا تو ان کے جنازے اور سوئم میں بھی صرف تین چار ادیب شریک تھے۔ ہم نے یہ بات لکھ دی تو
بعضو ں کی ایڑی میں لیگ کر چوٹی تک گئی، اور بعضے طنزو دشنام کے تمنچے داغنے لگے۔
یہاں روئے سخن ان کی طرف نہیں ہیں۔ بلکہ ہماری گفتگو ادبی عوام سے ہے۔ نہ صرف ہماری آپ کی روایت و ثقافت میں بلکہ ہر رویت و ثقافت میں کسی بھی جاننے والے بلکہ غیر تک کے انتقال پر تعزیت کی ہدایت کی جاتی ہے۔ چاہے صاحبِ انتقال آپ کواہم مذہب ہو یا غیر ثقافت کا۔جہاں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ جنازوں کے ساتھ چند قدم چلیں ، وہی غیر مذاہب میں بھی یہی روایت ہے۔ چاہے آپ گرجے میں جایئں یا نہ جایئں، جنازہ کے جلوس کو دیکھ کر احترام میں سر جھکاتے ہیں۔ یا، رام نا م ست ہے کا چند لمحہ چاپ کرتے ہیں۔
حق تو یہ ہے کہ انسان کسی کی موت پر اپنے سب اختلافات تک بھلا دیتا ہے۔ اکرام صاحب اور ضمیر احمد صاحب نے تو ہم جیسی مخالفتیں بھی مول نہیں لی تھیں۔ یہی وہ تجربے تھے جنہوں نے ہمیں غمزدہ اور مایوس کیا ہے۔
ہم نے کل کینیڈامیں ایک ممتاز ثقافتی منتظم ، ارشد محمود کے گلے میں ہاتھ ڈال کر آہ و ذاری کی اور پوچھا تو انہوں نے سمجھاتے ہوئے کہا کہ بھائی اگر تمہیں اپنے کام کی سچائی پر یقین ہے تو کیئے جاﺅ، یہ سوچے بغیر کے تمہارے جنازے کاکیا بنے گا؟ ہم نے یہ سن کر ابنِ انشا کا یہ اقتباس یاد کیا جسے آپ کے حوالے کرکے چلتے ہیں۔
جو لوگ ابھی تک نام وفا کالیتے ہیں
وہ جان کے دھوکے کھاتے دھوکے دیتے ہیں
ہاں ٹھوک بجا کر ہم نے ح±کم لگایا ہے
سب مایا ہے۔
